صحيح البخاری - ادب کا بیان - حدیث نمبر 6148
حدیث نمبر: 6148
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ فَسِرْنَا لَيْلًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرِ بْنِ الْأَكْوَعِ:‏‏‏‏ أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا فَنَزَلَ يَحْدُو بِالْقَوْمِ يَقُولُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَاغْفِرْ فِدَاءٌ لَكَ مَا اقْتَفَيْنَا وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَتَيْنَا وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا السَّائِقُ ؟قَالُوا:‏‏‏‏ عَامِرُ بْنُ الْأَكْوَعِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَرْحَمُهُ اللَّهُفَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ:‏‏‏‏ وَجَبَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَوْلَا أَمْتَعْتَنَا بِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ فَحَاصَرْنَاهُمْ حَتَّى أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ فَتَحَهَا عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَمْسَى النَّاسُ الْيَوْمَ الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ أَوْقَدُوا نِيرَانًا كَثِيرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا هَذِهِ النِّيرَانُ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ عَلَى لَحْمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عَلَى أَيِّ لَحْمٍ ؟قَالُوا:‏‏‏‏ عَلَى لَحْمِ حُمُرٍ إِنْسِيَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَهْرِقُوهَا وَاكْسِرُوهَافَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْ نُهَرِيقُهَا وَنَغْسِلُهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَوْ ذَاكَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ فِيهِ قِصَرٌ فَتَنَاوَلَ بِهِ يَهُودِيًّا لِيَضْرِبَهُ وَيَرْجِعُ ذُباب سَيْفِهِ فَأَصَابَ رُكْبَةَ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَفَلُوا قَالَ سَلَمَةُ:‏‏‏‏ رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاحِبًا فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ مَا لَكَ ؟فَقُلْتُ:‏‏‏‏ فِدًى لَكَ أَبِي وَأُمِّي زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ قَالَهُ ؟قُلْتُ:‏‏‏‏ قَالَهُ فُلَانٌ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ الْأَنْصَارِيُّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَذَبَ مَنْ قَالَهُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ قَلَّ عَرَبِيٌّ نَشَأَ بِهَا مِثْلَهُ.
شعر و رجز اور حدی خوانی کس طرح کی جائز ہے اور کیا مکروہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ شعراء کی اتباع بھٹکے ہوئے لوگ کرتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں حیران و سرگرداں پھرتے ہیں اور وہ لوگ ایسی بات کہتے ہیں جو نہیں کرتے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے ہیں اور اللہ کو بہت یاد کرتے ہیں اور ظلم کئے جانے کے بعد بدلہ لیتے ہیں اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کس کروٹ پلٹتے ہیں اور ابن عباس ؓ نے (فی کل واد یھیمون) کی تفسیر یہ بیان کی لغو خیالات میں غوطے لگاتے ہیں۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے، ان سے برید ابن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع ؓ نے کہ رسول اللہ کے ساتھ جنگ خیبر میں گئے اور ہم نے رات میں سفر کیا، اتنے میں مسلمانوں کے آدمی نے عامر بن اکوع رضی للہ عنہ سے کہا کہ اپنے کچھ شعر اشعار سناؤ۔ راوی نے بیان کیا کہ عامر شاعر تھے۔ وہ لوگوں کو اپنی حدی سنانے لگے۔ اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے نہ ہم صدقہ دے سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے۔ ہم تجھ پر فدا ہوں، ہم نے جو کچھ پہلے گناہ کئے ان کو تو معاف کر دے اور جب (دشمن سے) ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہم پر سکون نازل فرما۔ جب ہمیں جنگ کے لیے بلایا جاتا ہے، تو ہم موجود ہوجاتے ہیں اور دشمن نے بھی پکار کر ہم سے نجات چاہی ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ یہ کون اونٹوں کو ہانک رہا ہے جو حدی گا رہا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ عامر بن اکوع ہے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ پاک اس پر رحم کرے۔ ایک صحابی یعنی عمر ؓ نے کہا: یا رسول اللہ! اب تو عامر شہید ہوئے۔ کاش اور چند روز آپ ہم کو عامر سے فائدہ اٹھانے دیتے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ہم خیبر آئے اور اس کو گھیر لیا اس گھراؤ میں ہم شدید فاقوں میں مبتلا ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ نے خیبر والوں پر ہم کو فتح عطا فرمائی جس دن ان پر فتح ہوئی اس کی شام کو لوگوں نے جگہ جگہ آگ جلائی۔ نبی کریم نے پوچھا کہ یہ آگ کیسی ہے، کس کام کے لیے تم لوگوں نے یہ آگ جلائی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ گوشت پکانے کے لیے۔ اس پر آپ نے دریافت فرمایا کس چیز کے گوشت کے لیے؟ صحابہ نے کہا کہ بستی کے پالتو گدھوں کا گوشت پکانے کے لیے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ گوشت کو برتنوں میں سے پھینک دو اور برتنوں کو توڑ دو۔ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم گوشت تو پھینک دیں، مگر برتن توڑنے کے بجائے اگر دھو لیں؟ نبی کریم نے فرمایا اچھا یوں ہی کرلو۔ جب لوگوں نے جنگ کی صف بندی کرلی تو عامر (ابن اکوع شاعر) نے اپنی تلوار سے ایک یہودی پر وار کیا، ان کی تلوار چھوٹی تھی اس کی نوک پلٹ کر خود ان کے گھٹنوں پر لگی اور اس کی وجہ سے ان کی شہادت ہوگئی۔ جب لوگ واپس آنے لگے تو سلمہ (عامر کے بھائی) نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم نے دیکھا کہ میرے چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں، لوگ کہہ رہے ہیں کہ عامر کے اعمال برباد ہوگئے۔ (کیونکہ ان کی موت خود ان کی تلوار سے ہوئی ہے) نبی کریم نے فرمایا یہ کس نے کہا؟ میں نے عرض کیا: فلاں، فلاں، فلاں اور اسید بن حضیر انصاری نے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ جس نے یہ بات کہی اس نے جھوٹ کہا ہے انہیں تو دوہرا اجر ملے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر اشارہ کیا کہ وہ عابد بھی تھا اور مجاہد بھی (تو عبادت اور جہاد دونوں کا ثواب اس نے پایا) عامر کی طرح تو بہت کم بہادر عرب میں پیدا ہوئے ہیں (وہ ایسا بہادر اور نیک آدمی تھا) ۔
Narrated Salama bin Al-Aqwa (RA) : We went out with Allahs Apostle ﷺ to Khaibar and we travelled during the night. A man amongst the people said to Amir bin Al-Aqwa, "Wont you let us hear your poetry?" Amir was a poet, and so he got down and started (chanting Huda) reciting for the people, poetry that keep pace with the camels foot steps, saying, "O Allah! Without You we would not have been guided on the right path, neither would we have given in charity, nor would we have prayed. So please forgive us what we have committed. Let all of us be sacrificed for Your cause and when we meet our enemy, make our feet firm and bestow peace and calmness on us and if they (our enemy) will call us towards an unjust thing we will refuse. The infidels have made a hue and cry to ask others help against us. Allahs Apostle ﷺ said, "Who is that driver (of the camels)?" They said, "He is Amir bin Al-Aqwa." He said, "May Allah bestow His mercy on him." A man among the people said, Has Martyrdom been granted to him, O Allahs Prophet! Would that you let us enjoy his company longer." We reached (the people of) Khaibar and besieged them till we were stricken with severe hunger but Allah helped the Muslims conquer Khaibar. In the evening of its conquest the people made many fires. Allahs Apostle ﷺ asked, "What are those fires? For what are you making fires?" They said, "For cooking meat." He asked, "What kind of meat?" They said, "Donkeys meat." Allahs Apostle ﷺ said, "Throw away the meat and break the cooking pots." A man said, O Allahs Apostle ﷺ ! Shall we throw away the meat and wash the cooking pots?" He said, "You can do that too." When the army files aligned in rows (for the battle), Amirs sword was a short one, and while attacking a Jew with it in order to hit him, the sharp edge of the sword turned back and hit Amirs knee and caused him to die. When the Muslims returned (from the battle), Salama said, Allahs Apostle ﷺ saw me pale and said, What is wrong with you?" I said, "Let my parents be sacrificed for you! The people claim that all the deeds of Amir have been annulled." The Prophet ﷺ asked, "Who said so?" I replied, "So-and-so and so-and-so and Usaid bin Al-Hudair Al-Ansari said, Whoever says so is telling a lie. Verily, Amir will have double reward." (While speaking) the Prophet ﷺ put two of his fingers together to indicate that, and added, "He was really a hard-working man and a Mujahid (devout fighter in Allahs Cause) and rarely have there lived in it (i.e., Madinah or the battle-field) an "Arab like him."
Top