صحیح مسلم - پینے کی چیزوں کا بیان - حدیث نمبر 5303
حدیث نمبر: 6073 - 6074 - 6075
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ الطُّفَيْلِ هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَائِشَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حُدِّثَتْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ فِي بَيْعٍ أَوْ عَطَاءٍ أَعْطَتْهُ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ عَائِشَةُ أَوْ لَأَحْجُرَنَّ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ أَهُوَ قَالَ هَذَا ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ هُوَ لِلَّهِ عَلَيَّ نَذْرٌ أَنْ لَا أُكَلِّمَ ابْنَ الزُّبَيْرِ أَبَدًا، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَشْفَعَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلَيْهَا حِينَ طَالَتِ الْهِجْرَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ لَا أُشَفِّعُ فِيهِ أَبَدًا وَلَا أَتَحَنَّثُ إِلَى نَذْرِي، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا طَالَ ذَلِكَ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ كَلَّمَ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُمَا مِنْ بَنِي زُهْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ لَهُمَا:‏‏‏‏ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ لَمَّا أَدْخَلْتُمَانِي عَلَى عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا لَا يَحِلُّ لَهَا أَنْ تَنْذِرَ قَطِيعَتِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلَ بِهِ الْمِسْوَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ مُشْتَمِلَيْنِ بِأَرْدِيَتِهِمَا حَتَّى اسْتَأْذَنَا عَلَى عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَا:‏‏‏‏ السَّلَامُ عَلَيْكِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَدْخُلُ ؟ قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ ادْخُلُوا قَالُوا:‏‏‏‏ كُلُّنَا قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَم ادْخُلُوا كُلُّكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَعْلَمُ أَنَّ مَعَهُمَا ابْنَ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا دَخَلُوا دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْحِجَابَ فَاعْتَنَقَ عَائِشَةَ وَطَفِقَ يُنَاشِدُهَا وَيَبْكِي، ‏‏‏‏‏‏وَطَفِقَ الْمِسْوَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ يُنَاشِدَانِهَا إِلَّا مَا كَلَّمَتْهُ وَقَبِلَتْ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولَانِ:‏‏‏‏ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَمَّا قَدْ عَلِمْتِ مِنَ الْهِجْرَةِ فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَى عَائِشَةَ مِنَ التَّذْكِرَةِ وَالتَّحْرِيجِ طَفِقَتْ تُذَكِّرُهُمَا نَذْرَهَا وَتَبْكِي وَتَقُولُ:‏‏‏‏ إِنِّي نَذَرْتُ وَالنَّذْرُ شَدِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَزَالَا بِهَا حَتَّى كَلَّمَتِ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَأَعْتَقَتْ فِي نَذْرِهَا ذَلِكَ أَرْبَعِينَ رَقَبَةً، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ تَذْكُرُ نَذْرَهَا بَعْدَ ذَلِكَ فَتَبْكِي حَتَّى تَبُلَّ دُمُوعُهَا خِمَارَهَا.
ترک ملاقات کا بیان اور رسول اللہ ﷺ کا فرمانا کہ کسی شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک ملاقات کرے۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے، کہا مجھ سے عوف بن مالک بن طفیل نے بیان کیا وہ رسول اللہ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ کے مادری بھتیجے تھے، انہوں نے کہا کہ عائشہ ؓ نے کوئی چیز بھیجی یا خیرات کی تو عبداللہ بن زبیر جو ان کے بھانجے تھے کہنے لگے کہ عائشہ ؓ کو ایسے معاملوں سے باز رہنا چاہیئے نہیں تو اللہ کی قسم میں ان کے لیے حجر کا حکم جاری کر دوں گا۔ ام المؤمنین نے کہا کیا اس نے یہ الفاظ کہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں۔ فرمایا پھر میں اللہ سے نذر کرتی ہوں کہ ابن زبیر ؓ سے اب کبھی نہیں بولوں گی۔ اس کے بعد جب ان کے قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا۔ تو عبداللہ بن زبیر ؓ کے لیے ان سے سفارش کی گئی (کہ انہیں معاف فرما دیں) ام المؤمنین نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اس کے بارے میں کوئی سفارش نہیں مانوں گی اور اپنی نذر نہیں توڑوں گی۔ جب یہ قطعی تعلق عبداللہ بن زبیر ؓ کے لیے بہت تکلیف دہ ہوگئی تو انہوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود بن عبد یغوث ؓ سے اس سلسلے میں بات کی وہ دونوں بنی زہرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کسی طرح تم لوگ مجھے عائشہ ؓ کے حجرہ میں داخل کرا دو کیونکہ ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ میرے ساتھ صلہ رحمی کو توڑنے کی قسم کھائیں چناچہ مسور اور عبدالرحمٰن دونوں اپنی چادروں میں لپٹے ہوئے عبداللہ بن زبیر ؓ کو اس میں ساتھ لے کر آئے اور عائشہ ؓ سے اندر آنے کی اجازت چاہی اور عرض کی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، کیا ہم اندر آسکتے ہیں؟ عائشہ ؓ نے کہا آجاؤ۔ انہوں نے عرض کیا ہم سب؟ کہا ہاں، سب آجاؤ۔ ام المؤمنین کو اس کا علم نہیں تھا کہ عبداللہ بن زبیر ؓ بھی ان کے ساتھ ہیں۔ جب یہ اندر گئے تو عبداللہ بن زبیر ؓ پردہ ہٹا کر اندر چلے گئے اور ام المؤمنین ؓ سے لپٹ کر اللہ کا واسطہ دینے لگے اور رونے لگے (کہ معاف کردیں، یہ ام المؤمنین کے بھانجے تھے) مسور اور عبدالرحمٰن بھی ام المؤمنین کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ عبداللہ بن زبیر ؓ سے بولیں اور انہیں معاف کردیں ان حضرات نے یہ بھی عرض کیا کہ جیسا کہ تم کو معلوم ہے نبی کریم نے تعلق توڑنے سے منع کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ والی حدیث یاد دلانے لگے اور یہ کہ اس میں نقصان ہے تو ام المؤمنین بھی انہیں یاد دلانے لگیں اور رونے لگیں اور فرمانے لگیں کہ میں نے تو قسم کھالی ہے؟ اور قسم کا معاملہ سخت ہے لیکن یہ بزرگ لوگ برابر کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ ام المؤمنین نے عبداللہ بن زبیر ؓ سے بات کرلی اور اپنی قسم (توڑنے) کی وجہ سے چالیس غلام آزاد کئے۔ اس کے بعد جب بھی آپ یہ قسم یاد کرتیں تو رونے لگتیں اور آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہوجاتا۔
Top