سنن ابو داؤد - کھانے پینے کا بیان - حدیث نمبر 3796
حدیث نمبر: 3796
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الْحَكَمَ بْنَ نَافِعٍ حَدَّثَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ زُرْعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي رَاشِدٍ الْحُبْرَانِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَنَهَى عَنْ أَكْلِ لَحْمِ الضَّبِّ.
گوہ کھانے کا بیان
عبدالرحمٰن بن شبل اوسی انصاری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے گوہ کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ٩٧٠٢) (حسن )
وضاحت: ١ ؎: ضب: گوہ ایک رینگنے والا جانور جو چھپکلی کے مشابہ ہوتا ہے، اس کو سوسمار بھی کہتے ہیں، سانڈا بھی گوہ کی قسم کا ایک جانور ہے جس کا تیل نکال کر گٹھیا کے درد کے لئے یا طلاء کے لئے استعمال کرتے ہیں، یہ جانور نجد کے علاقہ میں بہت ہوتا ہے، حجاز میں نہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم نے اس کو نہ کھایا لیکن آپ کے دسترخوان پر یہ کھایا گیا اس لئے حلال ہے۔ جس جانور کو نبی اکرم کے دسترخوان پر صحابہ کرام ؓ نے کھایا اس کو عربی میں ضب کہتے ہیں اور خود حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ یہ نجد کے علاقہ میں پایا جانے والا جانور ہے، جو بلاشبہ حلال ہے۔ احناف اور شیعی فرقوں میں امامیہ کے نزدیک گوہ کا گوشت کھانا حرام ہے، فرقہ زیدیہ کے یہاں یہ مکروہ ہے، لیکن صحیح بات اس کی حلت ہے۔ نجد کے علاقے میں پایا جانے والا یہ جانور برصغیر ( ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) میں پائے جانے والے گوہ یا سانڈے سے بہت سی چیزوں میں مختلف ہے:۔ ضب نامی یہ جانور صحرائے عرب میں پایا جاتا ہے، اور ہندوستان میں پایا جانے والا گوہ یا سانڈا زرعی اور پانی والے علاقوں میں عام طورپر پایا جاتا ہے۔۔ نجدی ضب (گوہ) پانی نہیں پیتا اور بلا کھائے اپنے سوراخ میں ایک لمبی مدت تک رہتا ہے، کبھی طویل صبر کے بعد اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے، جب کہ برصغیر کا گوہ پانی کے کناروں پر پایا جاتا ہے، اور خوب پانی پیتا ہے۔۔ نجدی ضب ( گوہ) شریف بلکہ سادہ لوح جانور ہے، جلد شکار ہوجاتا ہے، جب کہ ہندوستانی گوہ کا پکڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔۔ نجدی ضب ( گوہ) کے پنجے آدمی کی ہتھیلی کی طرح نرم ہوتے ہیں، جب کہ ہندوستانی گوہ کے پنجے اور اس کی دم نہایت سخت ہوتی ہیں، اور اس کے ناخن اس قدر سخت ہوتے ہیں کہ اگر وہ کسی چیز کو پکڑلے تو اس سے اس کا چھڑانا نہایت دشوار ہوتا ہے، ترقی یافتہ دور سے پہلے مشہو رہے کہ چور اس کی دم کے ساتھ رسی باندھ کر اسے مکان کے پچھواڑے سے اوپرچڑھادیتے اور یہ جانور مکان کی منڈیر کے ساتھ جاکر مضبوطی سے چمٹ جاتا اور پنجے گاڑلیتا اور چور اس کی دم سے بندھی رسی کے ذریعہ اوپرچڑھ جاتے اور چوری کرتے، جب کہ نجدی ضب (گوہ) کی دم اتنی قوت والی نہیں ہوتی۔۔ ہندوستانی گوہ سانپ کی طرح زبان نکالتی اور پھنکارتی ہے، جب کہ نجدی ضب ( گوہ) ایسا نہیں کرتی۔۔ ہندوستانی گوہ ایک بدبودار جانور ہے اور اس کے قریب سے نہایت ناگوار بدبوآتی ہے، جب کہ نجدی ضب ( گوہ) میں یہ نشانی نہیں پائی جاتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی گوہ گندگی کھاتی ہے، اور کیڑے مکوڑے بھی، نجدی ضب ( گوہ) کیڑے مکوڑے اور خاص کر ٹڈی کھانے میں مشہور ہے، لیکن صحراء میں گندگی کا عملاً وجود نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو معمولی اور کبھی کبھار، صحراء میں پائی جانے والی بوٹیوں کو بھی وہ کھاتا ہے۔۔ نجدی ضب ( گوہ) کی کھال کو پکاکرعرب اس کی کپی میں گھی رکھتے تھے، جس کو ضبة کہتے ہیں اور ہندوستانی گوہ کی کھال کا ایسا استعمال کبھی سننے میں نہیں آیا اس لیے کہ وہ بدبودار ہوتی ہے۔۔ نجدی ضب نامی جانور اپنے بنائے ہوئے پُرپیچ اور ٹیڑھے میڑھے بلوں (سوراخوں) میں اس طرح رہتا ہے کہ اس تک کوئی جانور نہیں پہنچ سکتا، اور اسی لیے حدیث شریف میں امت محمدیہ کے بارے میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں چلے جانے کی تعبیرموجود ہے، اور یہ نبی اکرم کی کمال باریک بینی اور کمال بلاغت پر دال ہے، امت محمدیہ سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طرح طرح کی گمراہیوں اور ضلالتوں کا شکار ہوگی، حتی کہ اگر سابقہ امتیں اپنی گمراہی میں اس حدتک جاسکتی ہیں جس تک پہنچنامشکل بات ہے تو امت محمدیہ وہ کام بھی کرگزرے گی، اسی کو نبی اکرم نے اس طرح بیان کیا کہ اگر سابقہ امت اپنی گمراہی میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں گھسی ہوگی تو امت محمدیہ کے لوگ بھی اس طرح کا ٹیڑھا میڑھا راستہ اختیار کریں گے اور یہ حدیث ضب (گوہ) کے مکان یعنی سوراخ کے پیچیدہ ہونے پر دلالت کررہی ہے، اور صحراء نجد کے واقف کار خاص کر ضب ( گوہ) کا شکار کرنے والے اس کو بخوبی جانتے ہیں، اور ضب (گوہ) کو اس کے سوراخ سے نکالنے کے لیے پانی استعمال کرتے ہیں کہ پانی کے پہنچتے ہی وہ اپنے سوراخ سے باہرآجاتی ہے، جب کہ ہندوستانی گوہ پرائے گھروں یعنی مختلف سوراخوں اور بلوں اور پرانے درختوں میں موجودسوراخ میں رہتی ہے۔ ضب اور ورل میں کیا فرق ہے؟ صحرائے عرب میں ضب کے مشابہ اور اس سے بڑا بالو، اور صحراء میں پائے جانے والے جانورکو وَرَل کہتے ہیں، تاج العروس میں ہے: ورل ضب کی طرح زمین پر رینگنے والا ایک جانور ہے، جو ضب کی خلقت پر ہے، إلا یہ کہ وہ ضب سے بڑا ہوتا ہے، بالو اور صحراء میں پایا جاتا ہے، چھپکلی کی شکل کا بڑا جانور ہے، جس کی دم لمبی اور سر چھوٹا ہوتا ہے، ازہری کہتے ہیں: وَرَل عمدہ قامت اور لمبی دم والاجانور ہے، گویا کہ اس کی دم سانپ کی دم کی طرح ہے، بسا اوقات اس کی دم دوہاتھ سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے، اور ضب (گوہ) کی دم گانٹھ دار ہوتی ہے، اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی، عرب ورل کو خبیث سمجھتے اور اس سے گھن کرتے ہیں، اس لیے اسے کھاتے نہیں ہیں، رہ گیا ضب تو عرب اس کا شکار کرنے اور اس کے کھانے کے حریص اور شوقین ہوتے ہیں، ضب کی دم کھُردری، سخت اور گانٹھ والی ہوتی ہے، دم کا رنگ سبززردی مائل ہوتا ہے، اور خود ضب مٹ میلی سیاہی مائل ہوتی ہے، اور موٹا ہونے پر اس کا سینہ پیلاہوجاتا ہے، اور یہ صرف ٹڈی، چھوٹے کیڑے اور سبزگھاس کھاتی ہے، اور زہریلے کیڑوں جیسے سانپ وغیرہ کو نہیں کھاتی، اور ورل بچھو، سانپ، گرگٹ اور گوبریلاسب کھاتا ہے، ورل کا گوشت بہت گرم ہوتا ہے، تریاق ہے، بہت تیز موٹا کرتا ہے، اسی لیے عورتیں اس کو استعمال کرتی ہیں، اور اس کی بیٹ (کا سرمہ) نگاہ کو تیز کرتا ہے، اور اس کی چربی کی مالش سے عضوتناسل موٹا ہوتا ہے (ملاحظہ ہو: تاج العروس: مادہ ورل، و لسان العرب) سابقہ فروق کی وجہ سے دونوں جگہ کے نجدی ضب اور ورل اور ہندوستان پائے جانے والے جانور جس کو گوہ یا سانڈا کہتے ہیں، ان میں واضح فرق ہے، بایں ہمہ نجدی ضب ( گوہ) کھانا احادیث نبویہ اور اس علاقہ کے مسلمانوں کے رواج کے مطابق حلال ہے، اور اس میں کسی طرح کی قباحت اور کراہت کی کوئی بات نہیں، رہ گیا ہندوستانی گوہ کی حلت و حرمت کا مسئلہ تو سابقہ فروق کو سامنے رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہیے، اگر ہندوستانی گوہ نجاست کھاتا اور اس نجاست کی وجہ سے اس کے گوشت سے یا اس کے جسم سے بدبواٹھتی ہے تو یہ چیز علماء کے غور کرنے کی ہے، جب گندگی کھانے سے گائے بکری اور مرغیوں کا گوشت متاثر ہوجائے تو اس کا کھانا منع ہے، اس کو اصطلاح میں جلالہ کہتے ہیں، تو نجاست کھانے والا جانور گوہ ہو یا کوئی اور وہ بھی حرام ہوگا، البتہ برصغیر کے صحرائی علاقوں میں پایا جانے والا گوہ نجد کے ضب (گوہ) کے حکم میں ہوگا۔ ضب اور ورل کے سلسلے میں نے اپنے دوست ڈاکٹرمحمداحمد المنیع پروفیسرکنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور صحرائے نجد کے جانوروں کے واقف کار ہیں، سوال کیا تو انہوں نے اس کی تفصیل مختصراً یوں لکھ کردی: نجدی ضب نامی جانور کھایا جاتا ہے، اور ورل نہیں کھایا جاتا ہے ضب کا شکار آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور ورل کا شکارمشکل کام ہے، ضب گھاس کھاتا ہے، اور ورل گوشت کھاتا ہے، ضب چیرپھاڑ کرنے والا جانور نہیں ہے، جب کہ ورل چیرپھاڑ کرنے والا جانور ہے، ضب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے، اور ورل دھاری دھار ہوتا ہے، ضب کی جلد کھُردری ہوتی ہے اور ورل کی جلد نرم ہوتی ہے، ضب کا سر چوڑا ہوتا ہے، اور وَرل کا سر دم نما ہوتا ہے، ضب کی گردن چھوتی ہوتی ہے، اور ورل کی گردن لمبی ہوتی ہے، ضب کی دم چھوٹی ہوتی ہے اور ورل کی دم لمبی ہوتی ہے، ضب کھُردرا اوکانٹے دارہوتا ہے، اور ورل نرم ہوتا ہے، ضب اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے، اور ورل بھی اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے، اور دم سے شکار بھی کرتا ہے، ضب گوشت باکل نہیں کھاتا، اور ورل ضب اور گرگٹ سب کھا جاتا ہے، ضب تیز جانور ہے، اور ورل تیز ترضب میں حملہ آوری کی صفت نہیں پائی جاتی جب کہ ورل میں یہ صفت موجود ہے، وہ دانتوں سے کاٹتا ہے، اور دم اور ہاتھ سے حملہ کرتا ہے، ضب ضرورت پڑنے پر اپنا دفاع کاٹ کر اور ہاتھوں سے نوچ کر یا دم سے مار کرتا ہے، اور وَرل بھی ایسا ہی کرتا ہے، ضب میں کچلی دانت نہیں ہے، اور وَرل میں کچلی دانت ہے، ضب حلال ہے، اور ورل حرام، ورل کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ زہریلا جانور ہے۔ صحرائے عرب کا ضب، وَرل اور ہندوستانی گوہ یا سانڈا سے متعلق اس تفصیل کا مقصدصرف یہ ہے کہ اس جانور کے بارے میں صحیح صورت حال سامنے آجائے، حنفی مذہب میں بھینس کی قربانی جائز ہے اور دوسرے فقہائے کے یہاں بھی اس کی قربانی اس بناپر جائز ہے کہ یہ گائے کی ایک قسم ہے، جب کہ گائے کے بارے میں یہ مشہور ہے اور مشاہدہ بھی کہ وہ پانی میں نہیں جاتی جب کہ بھینس ایساجانور ہے جس کو پانی سے عشق اور کیچڑ سے محبت ہے اور جب یہ تالاب میں داخل ہوجائے تو اس کو باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے، اگر بھینس کی قربانی کو گائے پر قیاس کرکے فقہاء نے جائز کہا ہے تو دونوں جگہ گوہ کے بعض فرق کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اس جنس کے جانوروں کو حلال ہونا چاہیے، اہل علم کو فقہی تنگنائے سے ہٹ کر نصوص شرعیہ کی روشنی میں اس مسئلہ پر غور کرنا چاہیے اور عاملین حدیث کے نقطہ نظر کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنا چاہیے۔ گوہ کی کئی قسمیں ہیں اور ہوسکتا ہے کہ بہت سی چیزیں سب میں قدر مشترک ہوں جیسے کہ قوت باہ میں اس کا مفیدہونا اس کی چربی کے طبی فوائد وغیرہ وغیرہ۔ حکیم مظفر حسین اعوان گوہ کے بارے میں لکھتے ہیں: نیولے کے مانند ایک جنگلی جانور ہے، دم سخت اور چھوٹی، قد بلی کے برابرہوتا ہے، اس کے پنجے میں اتنی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ دیوار سے چمٹ جاتا ہے، رنگ زرد سیاہی مائل، مزاج گرم وخشک بدرجہ سوم ... اس کی کھال کے جوتے بنائے جاتے ہیں۔ (کتاب المفردات: ٤٢٧)، ظاہر ہے کہ یہ برصغیر میں پائے جانے والے جانور کی تعریف ہے۔ گوہ کی ایک قسم سانڈہ بھی ہے جس کے بارے میں حکیم مظفر حسین اعوان لکھتے ہیں: مشہورجانور ہے، جو گرگٹ یا گلہری کی مانند لیکن اس سے بڑا ہوتا ہے، اس کی چربی اور تیل دواء مستعمل ہے، مزاج گرم وتر بدرجہ اوّل، افعال واستعمال بطورمقوی جاذب رطوبت، معظم ذکر، اور مہیج باہ ہے (کتاب المفردات: صفحہ ٢٧٥ )
Narrated Abdur Rahman ibn Shibl (RA) : The Messenger of Allah ﷺ forbade to eat the flesh of lizard.
Top