صحیح مسلم - نماز کا بیان - حدیث نمبر 920
حدیث نمبر: 490
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ وَيَحْيَى بْنُ أَزْهَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمَّارِ بْنِ سَعْدٍ الْمُرَادِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ الْغِفَارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَرَّ بِبَابِلَ وَهُوَ يَسِيرُ فَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ يُؤَذِّنُ بِصَلَاةِ الْعَصْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا بَرَزَ مِنْهَا أَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا فَرَغَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ حَبِيبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانِي أَنْ أُصَلِّيَ فِي الْمَقْبَرَةِ وَنَهَانِي أَنْ أُصَلِّيَ فِي أَرْضِ بَابِلَ فَإِنَّهَا مَلْعُونَةٌ.
وہ مقامات جہاں نماز پڑھنا جائز نہیں
ابوصالح غفاری کہتے ہیں کہ علی ؓ بابل سے گزر رہے تھے کہ ان کے پاس مؤذن انہیں نماز عصر کی خبر دینے آیا، تو جب آپ بابل کی سر زمین پار کر گئے تو مؤذن کو حکم دیا اس نے عصر کے لیے تکبیر کہی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: میرے حبیب نے مجھے قبرستان میں اور سر زمین بابل میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎ کیونکہ اس پر لعنت کی گئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابو داود، (تحفة الأشراف: ١٠٣٢٨) (ضعیف) (اس کے راوی عمار ضعیف ہیں اور ابوصالح الغفاری کا سماع علی ؓ سے ثابت نہیں )
وضاحت: ١ ؎: یہ روایت اس باب کی صحیح روایت کے معارض ہے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ بفرض صحت اس سے مقصود یہ ہے کہ بابل میں سکونت اختیار نہ کی جائے یا یہ ممانعت خاص علی ؓ کے لئے تھی کیونکہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ یہاں کے لوگوں سے انہیں ضرر پہنچے گا۔
Top