Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (1721 - 2045)
Select Hadith
1721
1722
1723
1724
1725
1726
1727
1728
1729
1730
1731
1732
1733
1734
1735
1736
1737
1738
1739
1740
1741
1742
1743
1744
1745
1746
1747
1748
1749
1750
1751
1752
1753
1754
1755
1756
1757
1758
1759
1760
1761
1762
1763
1764
1765
1766
1767
1768
1769
1770
1771
1772
1773
1774
1775
1776
1777
1778
1779
1780
1781
1782
1783
1784
1785
1786
1787
1788
1789
1790
1791
1792
1793
1794
1795
1796
1797
1798
1799
1800
1801
1802
1803
1804
1805
1806
1807
1808
1809
1810
1811
1812
1813
1814
1815
1816
1817
1818
1819
1820
1821
1822
1823
1824
1825
1826
1827
1828
1829
1830
1831
1832
1833
1834
1835
1836
1837
1838
1839
1840
1841
1842
1843
1844
1845
1846
1847
1848
1849
1850
1851
1852
1853
1854
1855
1856
1857
1858
1859
1860
1861
1862
1863
1864
1865
1866
1867
1868
1869
1870
1871
1872
1873
1874
1875
1876
1877
1878
1879
1880
1881
1882
1883
1884
1885
1886
1887
1888
1889
1890
1891
1892
1893
1894
1895
1896
1897
1898
1899
1900
1901
1902
1903
1904
1905
1906
1907
1908
1909
1910
1911
1912
1913
1914
1915
1916
1917
1918
1919
1920
1921
1922
1923
1924
1925
1926
1927
1928
1929
1930
1931
1932
1933
1934
1935
1936
1937
1938
1939
1940
1941
1942
1943
1944
1945
1946
1947
1948
1949
1950
1951
1952
1953
1954
1955
1956
1957
1958
1959
1960
1961
1962
1963
1964
1965
1966
1967
1968
1969
1970
1971
1972
1973
1974
1975
1976
1977
1978
1979
1980
1981
1982
1983
1984
1985
1986
1987
1988
1989
1990
1991
1992
1993
1994
1995
1996
1997
1998
1999
2000
2001
2002
2003
2004
2005
2006
2007
2008
2009
2010
2011
2012
2013
2014
2015
2016
2017
2018
2019
2020
2021
2022
2023
2024
2025
2026
2027
2028
2029
2030
2031
2032
2033
2034
2035
2036
2037
2038
2039
2040
2041
2042
2043
2044
2045
سنن ابو داؤد - - حدیث نمبر 2005
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاشْتَدَّ مَرَضُهُ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» قَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّهُ رَجُلٌ رَقِيقٌ، إِذَا قَامَ مَقَامَكَ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، قَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» فَعَادَتْ، فَقَالَ: «مُرِي أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ» فَأَتَاهُ الرَّسُولُ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (رواه البخارى ومسلم)
وفات اور مرض وفات
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ مریض ہوئے اور پھر آپ کا مرض بہت بڑھ گیا (اور آپ مسجد تشریف لا کر نما زپڑھانے سے بالکل معذور ہو گئے) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ (میری طرف سے) ابو بکر کر حکم دو کہ وہ لوگوں کو (جو جماعت سے نماز ادا کرنے کے لئے مسجد میں جمع ہیں) نماز پڑھا دیں تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ وہ رقیق القلب آدمی ہیں، جب وہ نماز پڑھانے کے لئے آپ ﷺ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو (ان پر رقت غالب آ جائے گی اور) وہ نماز نہیں پڑھ سکیں گے (حضور ﷺ نے حضرت عائشہؓ کی یہ بات سن کر بھی یہی) فرمایا کہ ابو بکر کو حکم دپہنچا دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں (حضرت عائشہؓ نے پھر اپنی بات دہرائی اور پھر حضور ﷺ نے وہی فرمایا کہ ابو بکر کو حکم پہنچا دو کہ وہ نماز پڑھا دیں (اسی کے ساتھ) آپ ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا "فانكن صواحب يوسف" پھر حضور ﷺ کا قاصد (حضور ﷺ کا حکم لےکر)حضرت ابو بکرؓ کے پاس آیا (اور آپ ﷺ کا پیام اور حکم) ان کو پہنچایا تو پھر انہوں نے حضور ﷺ کی حیات مبارکہ میں (یعنی وفات تک برابر) لوگوں کو نماز پڑھائی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مرض وفات میں مسجد تشریف لے جا کر نماز پڑھانے سے آنحضرت ﷺ کے بالکل معذور ہو جانے کے بعد حضور ﷺ کے حکم سے حضرت ابو بکرؓ کے نماز پڑھانے کا یہ واقعہ صحیح بخاری کے متعدد ابواب میں مختلف صحابہ کرامؓ سے کہیں بہت اختصار کے ساتھ اور کہیں پوری تفصیل کے ساتھ روایت کیا گیا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ، کی جو حدیث یہاں درج کی گئی ہے وہ امام بخاری نے "باب العلم والفضل احق بالامامۃ" میں روایت کی ہے، اسی باب میں اسی واقعہ سے متعلق حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی اور اس اگلے باب میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیثیں بھی امام بخاری نے درج فرمائی ہیں۔ ان سب میں یہ واقعہ بہت اختصار کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔ اس کے تین باب آگے "باب إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ " میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے اس واقعہ سے متعلق جو حدیث امام بخاری نے روایت کی ہے اس سے واقعہ کی پوری تفصیل معلوم ہو جاتی ہے اس کا ھاصل یہ ہے کہ: رسول اللہ ﷺ وفات سے آٹھ دن پہلے حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں منتقل ہو جانے کے بعد بھی مرض کی شدت اور ضعف و نقاہت بہت زیادہ بڑھ جانے کے باوجود کئی دن تک ہر نماز کے وقت مسجد تشریف لے جا کر حسب معمول خود ہی نماز پڑھاتے رہے پھر اسی حال میں ایک دن ایسا ہوا کہ عشاء کی اذان ہو گئی اور لوگ جماعت سے نماز ادا کرنے کے لئے مسجد میں جمع ہو گئے، لیکن اس وقت مرض کی شدت کی وجہ سے حضور ﷺ پر غشی اور غفلت کی سی کیفیت طاری ہو گئی جب اس کیفیت سے افاقہ ہوا تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے مسجد میں نماز ادا کر لی؟ ..... عرض کیا گیا کہ ابھی لوگوں نے نماز ادا نہیں کی ہے وہ حضور ﷺ کے انتظار میں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے لئے ٹب میں پانی رکھو۔ آپ ﷺ کا خیال تھا کہ غسل کرنے سے ان شاء اللہ مرض کی شدت میں تخفیف ہو جائے گی اور میں مسجد جا کر نماز پڑھا سکوں گا حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ہم نے ٹب میں پانی رکھ دیا آپ ﷺ نے غسل فرمایا اور اٹھا کر کھڑے ہونے لگے، لیکن پھر وہ غشی اور غفلت کی کیفیت طاری ہو گئی پھر جب اس کیفیت سے افاقہ ہوا تو آپ ﷺ نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز ادا کر لی؟ عرض کیا گیا کہ ابھی نماز ادا نہیں کی گئی لوگ حضور ﷺ کے انتظار میں ہیں، آپ ﷺ نے پھر ٹب میں پانی بھرنے کا حکم فرمایا اور پھر غسل فرمایا اور پھر مسجد تشریف لے جانے کے لئے اٹھنے کا ارادہ فرمایا تو پھر وہی غشی اور غفلت کی کیفیت طاری ہو گئی، پھر جب اس کیفیت سے افاقہ ہوا تو پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز ادا کر لی؟ عرض کیا گیا کہ ابھی نماز ادا نہیں کی گئی لوگ آپ ﷺ کے انتظار میں ہیں تو آپ ﷺ نے پھر ٹب میں پانی بھرنے کے لئے فرمایا اور غسل فرمایا کہ مسجد جانے کے لئے اٹھنے کا ارادہ فرمایا تو پھر وہی غشی اور غفلت کی کیفیت طاری ہو گئی۔ (غرض تین دفعہ ایسا ہی ہوا) اس کے بعد جب افاقہ ہوا اور دریافت کرنے پر پھر آپ ﷺ کو بتلایا گیا کہ ابھی مسجد میں جماعت نہیں ہوئی، لوگ حضور ﷺ کے انتظار میں مسجد میں جمے بیٹھے ہیں، تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اب ابو بکرؓ کو میری طرف سے کہہ دیا جائے کہ وہ نماز پڑھا دیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کی جو روایت اوپر درج کی گئی ہے اس میں بھی ہے اور اس واقعہ کی اکثر روایات میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اس موقعہ پر عرض کیا کہ میرے والد ابو بکر رقیق القلب ہیں وہ جب مماز پڑھانے کے لئے حضور ﷺ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان پر رقت غالب آ جائے گی اور وہ نماز نہیں پڑھا سکیں گے، اس لئے بجائے ان کے حضرت عمرؓ کو حکم دے دیا جائے وہ مضبوط دل کے آدمی ہیں۔ لیکن حضور ﷺ نے ان کی اس بات کو قبول نہیں فرمایا اور جب انہوں نے دوبارہ وہی بات کہی تو حضور ﷺ نے ان کو ڈانٹ دیا اور فرمایا کہ ابو بکر ہی کو میرا یہ پیغام پہنچایا جائے کہ وہ نماز پڑھا دیں) چنانچہ حضرت بلالؓ نے حضرت ابو بکرؓ کو حضور ﷺ کا یہ حکم پہنچایا ...... (ان کو معلوم نہیں تھا کہ حضرت عائشہؓ اس بارے میں حضور ﷺ سے کیا عرض کر چکی ہیں اور ان کو کیا جواب مل چکا ہے) انہوں نے بھی اپنی قلبی کیفیت کا خیال کرتے ہوئے حضرت عمرؓ سے کہا کہ تم نماز پڑھا دو، انہوں نے کہا کہ حضور ﷺ نے تمہارے لئے حکم فرمایا ہے تم ہی نماز پڑھاؤ .... چنانچہ حضرت ابو بکر نے نماز پڑھائی ..... اوپر یہ ذخر کیا جا چکا ہے کہ یہ عشاء کی نماز تھی اور یہ پہلی نماز تھی جو رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات میں حضور ﷺ کے تاکیدی حکم سے حضرت ابو بکرؓ نے پڑھائی اور اس کے بعد حضور ﷺ کی وفات تک آپ ﷺ کے حکم کے مطابق وہی مسجد شریف میں نماز پڑھاتے رہے۔ آگے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی اس روایت میں یہ بھی ہے کہ پھر ایک دن نماز ظہر کے وقت جب کہ مسجد شریف میں نماز باجماعت شروع ہو چکی تھی اور آپ ﷺ کے حکم کے مطابق حضرت ابو بکرؓ نماز پڑھا رہے تھے، آپ ﷺ نے مرض اور تکلیف میں تخفیف اور افاقہ کی کیفیت محسوس کی تو دو آدمیوں کے سہارے آپ ﷺ مسجد تشریف لائے۔ حضرت ابو بکرؓ کو آپ ﷺ کی تشریف آوری کا احساس ہو گیا وہ پیچھے ہٹنے لگے تا کہ مقتدیوں کی صف میں شامل ہو جائیں آپ ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ مجھے ابو بکرؓ کے پہلو میں بٹھا دو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اب یہاں سے اصل امام حضور ﷺ ہو گئے اور حضرت ابو بکرؓ مقتدی ہو گئے، لیکن ضعف و نقاہت کی وجہ سے حضور ﷺ کی تکبیرات وغیرہ کی آواز چونکہ سب نمازی نہیں سن سکتے تھے اس لئے تکبیرات وغیرہ حضرت ابو بکرؓ ہی کہتے رہے بعض راویوں نے اس کو اس طرح تعبیر کیا ہے کہ ابو بکرؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کر رہے تھے اور باقی تمام نمازی ابو بکرؓ کی اقتدا کر رہے تھے، مطلب یہی ہے کہ عام نمازیوں کو رسول اللہ ﷺ کی تکبیرات وغیرہ کی آواز نہیں پہنچتی تھی ابو بکرؓ ہی کی آواز پہنچتی تھی اور وہ اسی کے مطابق رکوع و سجدہ وغیرہ کرتے تھے، یہ ظہر کی وہی نماز تھی جس کا ذکر پہلے بھی متعدد روایات میں آ چکا ہے اور یہ کہ اس نماز کے بعد آپ ﷺ نے منبر پر رونق افروز ہو کر خطاب بھی فرمایا جو مسجد میں آپ ﷺ کا آخری خطاب تھا۔ اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کو اپنی جگہ امام مقرر فرما دینے کے بعد حضور ﷺ نے ظہر کی یہ نماز مسجد تشریف لا کر ادا فرمائی اس کے علاوہ بھی کوئی نماز ان دنوں میں مسجد تشریف لا کر ادا فرمائی یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس واقعہ سے متعلق متعدد روایات میں خود حضرت عائشہ ؓ کا یہ بیان ذ کر کیا گیا ہے کہ میں نے جو حضور ﷺ سے بار بار عرض کیا کہ ابو بکرؓ رقیق القلب ہیں وہ جب آپ ﷺ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان پر رقت طاری ہو جائے گی اور وہ نماز نہ پڑھا سکیں گے تو اس کا اصل محرک میرا یہ خیال تھا کہ جو شخص حضور ﷺ کی جگہ کھڑے ہو کر نماز پڑھائے گا لوگ اس کو اچھی محبت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے اس لئے میں چاہتی تھی کہ حضور ﷺ ان کو نماز پڑھانے کا حکم نہ دیں۔ حضور ﷺ نے غالباً ان کے دل اور زبان کے اس فرق کو محسوس فرما لیا اس لئے ڈانٹا اور فرمایا "ان كن صواحب يوسف" حضرت عائشہؓ یہ نہ سمجھ سکیں کہ حضور ﷺ ان کو اپنی حیات میں امام نماز بنا کر اپنے بعد کے لئے امت کی امامت کبریٰ (خلافت نبوت) کا فیصلہ اپنے عمل سے فرما دینا چاہتے ہیں، حضور ﷺ کو ان کے امام بنانے پر اصرار اسی مقصد سے تھا۔
Top