مسند امام احمد - - حدیث نمبر 3028
حدیث نمبر: 3028
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْقُرَشِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا فَرَجُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَمِّي ثَابِتُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ سَعِيدٍ يَعْنِي ابْنَ أَبْيَضَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ كَلَّمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّدَقَةِ حِينَ وَفَدَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَخَا سَبَأٍ لَابُدَّ مِنْ صَدَقَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا زَرَعْنَا الْقُطْنَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَقَدْ تَبَدَّدَتْ سَبَأٌ وَلَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ بِمَأْرِبَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَالَحَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سَبْعِينَ حُلَّةً بَزٍّ مِنْ قِيمَةِ وَفَاءِ بَزِّ الْمَعَافِرِ كُلَّ سَنَةٍ عَمَّنْ بَقِيَ مِنْ سَبَأٍ بِمَأْرِبَ فَلَمْ يَزَالُوا يَؤُدُّونَهَا حَتَّى قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْعُمَّالَ انْتَقَضُوا عَلَيْهِمْ بَعْدَ قَبْضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا صَالَحَ أَبْيَضُ بْنُ حَمَّالٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحُلَلِ السَّبْعِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَدَّ ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى مَا وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَاتَ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا مَاتَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ انْتَقَضَ ذَلِكَ وَصَارَتْ عَلَى الصَّدَقَةِ.
یمن کی زمین کا حکم
ابیض بن حمال ؓ کہتے ہیں کہ جب وہ وفد میں شامل ہو کر رسول اللہ کے پاس آئے تو آپ سے صدقے کے متعلق بات چیت کی، رسول اللہ نے فرمایا: اے سبائی بھائی! (سبا یمن کے ایک شہر کا نام ہے) صدقہ دینا تو ضروری ہے ، ابیض بن حمال نے کہا: اللہ کے رسول! ہماری زراعت تو صرف کپاس (روئی) ہے، (سبا اب پہلے والا سبا نہیں رہا) سبا والے متفرق ہوگئے (یعنی وہ شہر اور وہ آبادی اب نہیں رہی جو پہلے بلقیس کے زمانہ میں تھی، اب تو بالکل اجاڑ ہوگیا ہے) اب کچھ تھوڑے سے سبا کے باشندے مارب (ایک شہر کا نام ہے) میں رہ رہے ہیں، تو نبی اکرم نے ان سے ہر سال کپڑے کے ایسے ستر جوڑے دینے پر مصالحت کرلی جو معافر ١ ؎ کے ریشم کے جوڑے کی قیمت کے برابر ہوں، وہ لوگ رسول اللہ کی وفات تک برابر یہ جوڑے ادا کرتے رہے، رسول اللہ کے انتقال کے بعد عمال نے رسول کے ابیض بن حمال سے سال بہ سال ستر جوڑے دیتے رہنے کے معاہدے کو توڑ دیا، پھر ابوبکر ؓ نے سال میں ستر جوڑے دئیے جانے کے رسول اللہ کے اس حکم کو دوبارہ جاری کردیا، پھر جب ابوبکر ؓ کا انتقال ہوا تو یہ معاہدہ بھی ٹوٹ گیا اور ان سے بھی ویسے ہی صدقہ لیا جانے لگا جیسے دوسروں سے لیا جاتا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ٢) (ضعیف الإسناد) (اس کے دو راوی ثابت بن سعید اور سعید بن ابیض لین الحدیث ہیں )
وضاحت: ١ ؎: یمن میں ایک جگہ کا نام ہے جہاں کپڑے بنے جاتے تھے۔
Top