صرف وہی عمل قابلِ قبول ہے جو اللہ کے لیے ہو
حضرت عمر بن الخطاب ؓ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا آپ فرماتے تھے کہ: "سب انسانی اعمال کا دارو مدار بس نیتوں پر ہے اور آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملتا ہے تو جس شخص نے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کی (اور خدا و رسول کی رضا جوئی و اطاعت کے سوا اس کی ہجرت کا اور کوئی باعث نہ تھا) تو اس کی ہجرت در حقیقت اللہ و رسول ہی کی طرف ہوئی (اور بے شک وہ اللہ و رسول کا سچا مہاجر ہے اور اس کو اس ہجرت الی اللہ والرسول کا مقرر اجر ملے گا) اور جو کسی دنیاوی غرض کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی خاطر "مہاجر" بنا تو (اس کی ہجرت اللہ و رسول کے لیے نہ ہو گی، بلکہ) فی الواقع جس دوسری غرض اور نیت سے اس نے ہجرت اختیار کی ہے عند اللہ بس اسی کی طرف اس کی ہجرت مانی جائے گی۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حدیث کا جو ترجمہ اوپر کیا گیا ہے وہ خود مطلب خیز ہے اور نفسِ مفہوم کے بیان کے لیے اس کے بعد کسی مزید تشریح کی حاجت نہیں، لیکن اس کی خصوصی اہمیت کا تقاضہ ہے کہ اس کے مطالب و فوائد پر کچھ اور بھی لکھا جائے۔
حدیث کا اصل منشاء امت پر اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ تمام اعمال کے صلاح و فساد اور مقبولیت و مردودیت کا مدار نیت پر ہے یعنی عملِ صالح وہی ہو گا اور اُسی کی اللہ کے یہاں قدر و قیمت ہو گی جو صالح نیت سے کیا گیا ہو اور جو "عملِ صالح" کسی بُری غرض اور فاسد نیت سے کیا گیا ہو وہ صالح اور مقبول نہ ہو گا، بلکہ نیت کے مطابق فاسد اور مردود ہو گا، اگرچہ ظاہری نظر میں "صالح" ہی معلوم ہو۔۔۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ عمل کے ساتھ نیت کا اور ظاہر کے ساتھ باطن کا بھی دیکھنے والا ہے اس کے یہاں ہر عمل کی قدر و قیمت عمل کرنے والے کی نیت کے حساب سے لگائی جائے گی۔
ایک غلط فہمی
کسی کو اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ جب دار و مدار نیت ہی پر ہو تو اگر برے کام بھی کسی اچھی نیت سے کئے جائیں تو وہ اعمال صالحہ ہو جائیں گے اور ان پر بھی ثواب ملے گا مثلاً اگر کوئی شخص اس نیت سے چوری اور ڈاکہ زنی کرے کہ جو مال اس سے حاصل ہو گا اُس سے وہ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرے گا تو وہ بھی ثواب کا مستحق ہو سکے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ جو کام فی نفسہ برے ہیں اور جن سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے اُن میں حُسنِ نیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، وہ تو بہر حال قبیح اور موجبِ غضبِ الہی ہیں، بلکہ ان کے ساتھ اچھی نیت کرنا اور اُن پر ثواب کی امید رکھنا شاید انکی مزید قباحت کا اور سزا میں زیادتی کا باعث ہو، کیوں کہ یہ اللہ کے دین کے ساتھ ایک قسم کا تلاعب (کھیل) ہو گا، بلکہ حدیث کا منشا "اعمال صالحہ" کے متعلق یہ جتلانا ہے کہ وہ بھی اگر کسی بری نیت سے کئے جائیں گے تو پھر "اعمال صالحہ" نہیں رہیں گے، بلکہ بُری نیت کی وجہ سے انکا انجام بُرا ہی ہو گا۔ مثلاً جو شخص نماز نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھتا ہے جس کو ہم اعلیٰ درجہ کا عمل صالح سمجھتے ہیں وہ اگر یہ خشوع و خضوع اس لیے کرتا ہے کہ لوگ اس کی دینداری اور خدا پرستی کے متعلق اچھی رائے قائم کریں اور اس کا اعزاز و اکرام کیا جائے، تو اس حدیث کی رو سے اس کی یہ خشوع و خضوع والی نماز اللہ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتی، یا مثلاً ایک شخص دار الکفر سے دار الایمان کی طرف ہجرت کرتا ہے اور اس کے لیے ہجرت کی ساری مشقتیں اور مصیبتیں سہتا ہے لیکن اس کی غرض اس ہجرت سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی نہیں بلکہ کوئی اور دُنیاوی غرض پوشیدہ ہے، مثلاً دار الہجرت میں رہنے والی کسی عورت سے نکاح کی خواہش اس ہجرت کے لیے محرک ہوئی ہے تو یہ ہجرت ہجرت اسلام نہ ہو گی اور اللہ کے ہاں اس کا کوئی اجر نہ ہو گا بلکہ اُلٹا گناہ ہو گا بس یہی ہے اس حدیث کا اصل منشاء۔
بڑے سے بڑا عمل بھی اگر اخلاص اور للہیت سے خالی ہو گا تو وہ جہنم ہی میں لے جائے گا۔
ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے تین شخصوں کے متعلق عدالت الہیہ سے جہنم کا فیصلہ سنایا جائے گا، سب سے پہلے ایسے شخص کی پیشی ہو گی جو جہاد میں شہید ہوا ہو گا، وہ جب حاضرِ عدالت ہو گا تو اللہ تعالیٰ پہلے اس کو اپنی نعمتیں جتائے گا اور یاد دلائے گا وہ اس کو یاد آ جائیں گی پھر اس سے فرمایا جائے گا بتلا تو نے ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا؟ اور کیا عمل کئے؟ وہ عرض کرے گا خدا وند! میں نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تیری رضا طلبی میں جانِ عزیز تک قربان کر دی، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے تو نے تو صرف اس لیے جہاد کیا تھا کہ تو بہادر مشہور ہو، تو دنیا میں تیری بہادری کا چرچا ہو چکا، پھر اللہ کے حکم سے اس کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اسی طرح ایک "عالم دین" اور "عالمِ قرآن" حاضرِ عدالت کیا جائے گا اور اس سے بھی اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے کیا اعمال کئے؟ وہ کہے گا میں نے تیرے دین اور تیری کتاب کے علم کو پڑھایا، اور یہ سب تیری رضا کے لیے کیا، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے تو عالم، قاری، اور مولانا کہلانے کے لیے یہ سب کچھ کیا تھا پھر بحکمِ خداوندی اس کو بھی دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
پھر اس کے بعد ایک شخص پیش ہو گا جس کو اللہ نے بہت کچھ مال و دولت دیا ہو گا، اس سے بھی سوال کیا جائے گا کہ تو نے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا کہ خدا وندا میں نے خیر کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جس میں تیری رضا جوئی کے لیے اپنا مال نہ خرچ کیا ہو، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو نے تو صرف اس لیے مال خرچ کیا تھا کہ دُنیا تجھ کو سخی کہے تو دنیا میں تیری سخاوت کا خوب چرچا ہو لیا، پھر اس کو بھی اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم)
(اللہ پناہ میں رکھے نیتوں کے فساد بالخصوص ریا و نفاق سے۔ آمین)
الغرض اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی عمل کام آئے گا جو صالح نیت سے یعنی محض رضائے الہی کے لیے کیا گیا ہو، دین کی خاص اصطلاح میں اسی کا نام اخلاص ہے۔
قرآن مجید میں مخلصوں اور غیر مخلصوں کی ایک مثال
قرآن پاک کی ذیل کی دو آیتوں میں صدقات و خیرات کرنے والے دو قسم کے آدمیوں کا ذکر کیا گیا ہے، ایک وہ لوگ جو مثلاً دنیا کے دکھاوے کے لیے اپنا مال مصارفِ خیر میں صرف کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو محض اللہ کی رضا جوئی کی نیت سے غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کی مدد کرتے ہیں، ان دونوں گروہوں کے ظاہری عمل میں قطعی یک رنگی ہے اور ظاہر ہے کہ آنکھ ان کے درمیان کسی فرق کا حکم نہیں کر سکتی لیکن قرآن پاک بتلاتا ہے کہ چونکہ ان کی نیتیں مختلف ہیں اس لیے ان دونوں کے عمل کے نتیجے بھی مختلف ہیں، ایک کا عمل سراسر برکت ہے اور دوسرے کا بالکل اکارت:
كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗوَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
اُس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے، اور اللہ اور یومِ آخر پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے پتھر کی ایک چٹان ہو جس پر کچھ مٹی آ گئی ہو، (اور اس پر کچھ سبزہ جم آئے) پھر اس پر زوروں کی بارش گرے جو اس کو بالکل صاف کر دے، تو ایسے ریا کار لوگ اپنی کمائی کا کچھ بھی پھل نہ لے سکیں گے اور ان منکر لوگوں کو اللہ اپنی ہدایت اور اسکے میٹھے پھل سے محروم ہی رکھے گا۔
وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ
اور اُن لوگوں کی مثال جو محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے اور اپنے نفسوں کو ایثار و انفاق اور راہِ خدا میں قربانی کا خوگر بنانے کے لیے اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس پھولنے پھلنے والے باغ کی سی ہے جو ٹیکری پر واقع ہو اُس پر جب زوروں کی بارش ہو تو دو گنا چوگنا پھل لائے۔
تو اگرچہ ان دونوں نے بظاہر یکساں طور پر اپنا مال غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں پر خرچ کیا، مگر چونکہ ایک کی نیت محض دکھاوے کی تھی اس لیے لوگوں کے دیکھ لینے یا زیادہ سے زیادہ اُن کی وقتی داد و تحسین کے سوا اس کو کچھ حاصل نہ ہوا، کیوں کہ اس کی غرض اس انفاق سے اس کے سوا کچھ اور تھی ہی نہیں۔۔۔ لیکن دوسرے نے چونکہ اس ایثار و انفاق سے صرف اللہ کی رضا مندی اور اس کا فضل و کرم چاہا تھا اس لیے اللہ نے اس کو اس کی نیت کے مطابق پھل دیا۔
بس یہی وہ سنتُ اللہ اور قانون خداوندی ہے جس کا اعلان رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا ہے۔
اس دنیا میں صرف ظاہر پر تمام فیصلے کئے جاتے ہیں اور آخرت میں نیتوں پر کئے جائیں گے۔
یہ عالم جس میں ہم ہیں اور ہم کو جس میں کام کرنے کا موقع دیا گیا ہے "عالمِ ظاہر" اور "عالم، شہادت" ہے اور ہمارے حواس و ادراکات کا دائرہ بھی یہاں صرف ظاہر اور مظاہر ہی تک محدود ہے، یعنی یہاں ہم ہر شخص کا صرف ظاہر چال چلن دیکھ کر ہی اس کے متعلق اچھی یا بُری رائے قائم کر سکتے ہیں، اور اسی کی بنیاد پر اس کے ساتھ معاملہ کر سکتے ہیں، ظاہری اعمال پر سے ان کی نیتوں، دل کے بھیدوں اور سینوں کے رازوں کے دریافت کرنے سے ہم قاصر ہیں اسی لیے حضرت فاروق اعظمؓ نے فرمایا: نَحْنُ نَحْكُمُ بِالظَّاهِرِ وَاللهُ يَتَوَلَّى السَّرَائِر (یعنی ہمارا کام ظاہر پر حکم لگانا ہے اور مخفی راز اللہ کے سپرد ہیں) لیکن عالمِ آخرت میں فیصلہ کرنے والا اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہو گا اور وہاں اس کافیصلہ نیتوں اور دل کے ارادوں کے لحاظ سے ہو گا، گویا احکام کے بارے میں جس طرح یہاں ظاہری اعمال اصل ہیں اور کسی کی نیت پر یہاں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا، اسی طرح وہاں معاملہ اس کے برعکس ہو گا، اور حق تعالیٰ کا فیصلہ نیتوں پر ہو گا، اور ظاہری اعمال کو ان کے تابع رکھا جائے گا۔
حدیث کی خصوصی اہمیت
یہ حدیث اُن "جوامع الکلم" میں سے یعنی رسول اللہ ﷺ کے اُن مختصر، مگر جامع اور وسیع المعنی ارشادات میں سے ہے جو مختصر ہونے کے باوجود دین کے کسی بڑے اہم حصہ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اور "دریا بکوزہ" کے مصداق ہیں، یہاں تک کہ بعض ائمہ نے کہا ہے کہ"اسلام" کا ایک تہائی حصہ اس حدیث میں آ گیا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ ان ائمہ نے فرمایا مبالغہ نہیں ہے بلکہ عین حقیقت ہے، کیوں کہ اصولی طور پر اسلام کے تین ہی شعبے ہیں۔ ایمان (یعنی اعتقادیات) اعمال اور اخلاص، چوں کہ یہ حدیث اخلاص کے پورے شعبہ پر حاوی ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسلام کا ایک تہائی حصہ اس میں آ گیا۔۔۔ اور پھر اخلاص وہ چیز ہے جس کی ضرورت ہر کام میں اور ہر قدم پر ہے، خاص کر جب بندہ کوئی اچھا سلسلہ شروع کرے خواہ وہ علمی ہو یا عملی تو وہ اس کا حاجت مند ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد اس کے سامنے ہو، اس لئے بعض اکابر نے اپنی مؤلفات کو اسی حدیث سے شروع کرنا بہتر سمجھا ہے چناں چہ امام بخاری نے اپنی "جامع صحیح" کو اور ان کے بعد امام بغوی نے "مصابیح" کو اور اسی حدیث سے شروع کیا ہے، گویا اسی کو "فاتحۃ الکتاب" بنایا ہے اور حافظ الحدیث ابن مہدیٰ سے منقول ہے کہ جو شخص کوئی دینی کتاب تصنیف کرے اچھا ہو کہ وہ اسی حدیث سے اپنی کتاب کا آغاز کرے (آگے فرمایا) اور اگر میں کوئی کتاب لکھوں تو اس کے ہر باب کو اسی حدیث پاک سے اپنی اس کتاب کا آغاز کیا ہے، اللہ تعالیٰ بخیر اتمام کی توفیق دے اور قبول فرمائے نیز اس ناچیز کو اور کتاب کے تمام ناظرین کو اخلاص و حسنِ نیت نصیب فرمائے۔
(اس کے بعد ایک خاص ترتیب سے وہ حدیثیں درج ہوں گی جن میں رسول اللہ ﷺ نے ایمان و اسلام کا یا ان کے ارکان اور شعبوں کا یا ان کے لوازم و شرائط کا یا ان کے برکات و ثمرات کا یا ان کے مفسدات و مناقضات کا ذکر فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے "حدیث جبرئیل" درج کی جا رہی ہے جو اصولی طور پر دین کے سارے شعبوں پر حاوی ہونے کی وجہ سے "ام السنہ" کہی جاتی ہے)