رسولوں پر ایمان لانا
رسولوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں تک اپنے احکام پہچانے کے لئے ان ہی میں سے کچھ بندوں کو چن لیا ہے۔جن کو نبی اور رسول کہتے ہیں۔ نبی اور رسول اللّٰہ تعالیٰ کے بندے اور انسان ہوتے ہیں وہ سچے ہوتے ہیں، کبھی جھوٹ نہیں بولتے، ہر قسم کے صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔اللّٰہ تعالیٰ کے احکام پوری طرح سے پہچا دیتے ہیں اور ان میں کمی بیشی نہیں کرتے اور نہ کسی پیغام کو چھپاتے ہیں۔ رسول اس پیغمبر کو کہتے ہیں جس کو نئی شریعت اور کتاب دی گئی ہو اور نبی ہر پیغمبر کو کہتے ہیں خواہ اسے نئی شریعت اور کتاب دی گئی ہو یا نہ دی گئی ہو بلکہ وہ پہلی شریعت اور کتاب کا تابع ہو، پس ہر رسول نبی ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہے۔ ( بعض علما نے نبی اور رسول کو ایک ہی معنی میں لیا ہے ) نبوت اور رسالت اپنے کسب و کوشش سے حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ جس کو اللّٰہ تعالیٰ بنائے وہی بنتا ہے۔پس یہ مرتبہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔ سب نبی مرد ہوئے ہیں کوئی عورت نبی نہیں ہوئی دنیا میں بہت سے رسول اور نبی آئے بعض روایتوں میں ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار آئی ہے اور بعض میں ایک لاکھ چونتیس ہزار اور بعض میں دو لاکھ چوبیس ہزار، یہ تعداد قطعی نہیں ہے،غالباً کثرت کے بیان کے لئے ہے، ان کی صحیح تعداد اللّٰہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ہمیں اور آپ کو اس طرح ایمان لانا چاہیے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جتنے رسول اور نبی بھیجے ہم اُن سب کو برحق اور رسول اور نبی مانتے ہیں۔ ان میں تین سو تیرہ رسول ہیں۔ سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ الاسلام ہیں اور سب سے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیں، یعنی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر رسالت و نبوت ختم ہو گئی ہے آپ قیامت تک تمام انسانوں اور جنوں کے لئے رسول ہیں۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک حقیقی یا ظلّی یا بروزی کسی قسم کا کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص حقیقی یا ظلّی یا بروزی کسی بھی قسم کی پیغمبری کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا اور کافر و دجال ہے۔ حضرت آدم علیہ الاسلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے درمیان میں جو پیغمبر آئے ان میں سے بعض کے اسمائے گرامی قران مجید و احادیث میں آئے ہیں۔ ان میں سے مشہور نام یہ ہیں حضرت نوح، حضرت شیث، حضرت ابراہیم، حضرت اسحٰق، حضرت اسمٰعیل، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت ایوب، حضرت موسیٰ، حضرت ہارون، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ، حضرت الیاس، حضرت الیسع، حضرت یونس، حضرت لوط، حضرت ادریس، حضرت ذوالکفل، حضرت صالح، حضرت ہود، حضرت شعیب، حضرت عیسیٰ علیٰ نبینّا و علیہم الصلوت واسلام۔رسولوں پیغمبروں میں بعض کا مرتبہ بعض سے بڑا ہے۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تمام نبیوں اور رسولوں سے افضل اور بزرگ ہیں۔اللّٰہ تعالیٰ کے تو آپ بھی بندے اور فرمانبردار ہیں اللّٰہ تعالیٰ کے بعد آپ کا مرتبہ سب سے بڑھا ہوا ہے۔ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر آپ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں ہیں اور عرب کے مشہور و بزرگ ترین خاندانِ قریش میں سے ہیں اور ملکِ عرب کے مشہور شہر مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے، عرب کے تمام خاندانوں میں خاندانِ قریش کی عزت اور مرتبہ سب سے زیادہ تھا اور یہ دوسرے خاندانوں کے سردار مانے جاتے تھے، پھر خاندانِ قریش کی ایک شاخ بنی ہاشم تھی، جو قریش کی دوسری شاخوں سے زیادہ عزت رکھتی تھی، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس شاخ بنی ہاشم میں سے ہیں، اس لئے حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ہاشمی بھی کہتے ہیں، ہاشم آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پردادا کا نام ہے، آپ کا سلسلہ نسب چار پشت تک ہر مسلمان کو یاد رکھنا چاہئے، وہ اس طرح ہے محمد (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) بن عبداللّٰہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدالمناف۔ چالیس برس میں آپ پر وہی کا نزول ہوا۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا کلام قرآن مجید اور اپنے احکام اتارنے شروع کئے۔ اس کے بعد آپ تئیس سال زندہ رہے، ظہور نبوت سے تیرہ سال تک یعنی کل ترپن سال مکہ معظمہ میں اور دس سال مدینہ منورہ میں قیام پزیر رہے۔ جب آپ نے مکہ معظمہ میں دینِ اسلام کی تبلیغ شروع کی تو مکہ معظمہ کے کفار و مشرکین نے آپ کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچانی شروع کر دیں آپ برداشت کرتے رہے۔ آخر جب ان کی دشمنی کی کوئی حد نہ رہی اور سب نے مل کر آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا تو حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے پیارے وطن مکہ معظمہ کو چھوڑ کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے اس کو ہجرت کہتے ہیں اور اسی مناسبت سے مسلمانوں کا سن ہجری جاری ہوا ہے۔ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لے جانے کی خبر سن کر اور مسلمان بھی جن کو کافر ستاتے رہتے تھے آہستہ آہستہ مدینہ منورہ چلے گئے، ان مسلمانوں کو جو مکہ مکرمہ سے اپنے گھر بار چھڑ کر مدینہ طیبہ چلے آئے مہاجرین کہتے ہیں اور مدینہ طیبہ کے مسلمان جنہوں نے آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور مہاجرین کی مدد کی انصار کہلاتے ہیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دس سال مدینہ منورہ کے قیام کے زمانے میں اللّٰہ پاک نے آپ کو دو فتوحات نصیب فرمائیں کہ جن کی برکت سے آج اسلام دنیا کے گوشہ گوشہ میں رائج ہے۔ چند دن اوپر تریسٹھ سال کی عمر میں بروایتِ مشہور بتاریخ 12 ربیع الاول سن 11 ہجری بروز دو شنبہ آپ کے جسد اطہر سے روح مبارک نے سوئے رفیقِ اعلی پرواز کی، اِنَّک مَیتُ وَ اِنَّھم مِیِّتُونَ اِنَّا لِلّٰہ واِنَّا اِلِیہِ رَاجِعُونَ (آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مفصل حالات و اخلاق و عادات وغیرہ کتب احادیث و شمائل و سیر و تواریخ میں ملاحظہ کریں۔)
Top