بدن کی طہارت
1.بدن کی طہارت نمازی کو اپنا بدن نجاستِ حکمی و حقیقی سے پاک کرنا فرض ہے ، نجاست حکمیہ وہ ہے جو دیکھنے میں نہیں آ سکتی مگر شریعت کے حکم سے نجاست کہلاتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں ، 0حدثِ اکبر یا جنابت یعنی غسل فرض ہونا، 0 حدثِ اصغر یعنی بے وضو ہونا، پس جنابت والی کے لئے غسل اور بے وضو کو وضو کرنا نجاستِ حکمی سے بدن کو پاک کرنا کہلاتا ہے اس کی تفصیل طہارت کے بیان میں گزر چکی ہے نجاستِ حقیقیہ وہ ناپاکی ہے جو دیکھنے میں آئے جیسے پیشاب، پاخانہ، خون، شراب وغیرہ، اس کی بھی دو قسمیں ہیں 1. غلیظہ، و 2. خفیفہ، ان دونوں کی تفصیل بھی طہارت کے بیان میں گزر چکی ہے نجاستِ حقیقیہ سے بدن کو پاک کرنا اس وقت فرض ہے جبکہ نجاست اتنی لگی ہو کہ نماز کی مانع ہو اور اس کا دور کرنا ایسے فعل کا مرتکب ہوئے بغیر ممکن ہو جس کی برائی اس سے سخت شدید ہو پس اگر آدمیوں کے سامنے ستر کھولے بغیر نجاست دور نہیں کر سکتا تو اسی نجاست سے نماز پڑھ لے، حقیقیہ کی مقدار جو مانع نماز ہے اور جس کا دھونا فرض ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ نجاستِ غلیظہ اگر درہم سے زیادہ ہو تو اُس کا دھونا فرض ہے اور اس کے ساتھ نماز پڑھنے سے نماز نہیں ہو گی اور اگر درہم کی مقدار ہے تو اُس کا دھونا واجب ہے اور نماز اس کے ساتھ جائز مگر مکروہِ تحریمی ہے جس کا لوٹانا واجب ہے اور قصداً اتنی نجاست لگی رکھنا بھی جائز نہیں اور اگر درہم سے کم ہے تو اس کا دھونا سنت ہے اگر نجاستِ غلیظہ گاڑھی ہے جیسے پاخانہ تو درہم کے وزن کا اعتبار ہے اور وہ ساڑھے چار ماشہ ہے پس اگر جسم والی نجاستِ غلیظہ وزن میں ساڑھےچار ماشہ سے کم ہو لیکن پھیلاؤ میں درہم ( روپیہ) کے برابر ہو تو نماز کے مانع نہیں ہے اور اگر پتلی ہو جیسے پیشاب، شراب وغیرہ تو وہ ایک روپیہ کے پھیلاؤ کے برابر ایک درہم کہلاتی ہے ، اگر نجاستِ خفیفہ لگی ہو تو جب تک بدن یا کپڑے کی چوتھائی سے کم ہے معاف ہے یعنی نماز صحیح ہونے کی مانع نہیں ہے نجس ہونے کے بارے میں ظاہری بدن کا اعتبار ہے پس اگر نجس سرمہ آنکھوں میں لگایا تو آنکھوں کا دھونا واجب نہیں
Top