موزوں پر مسح کرنا رخصت ( جائز) ہے اور پاؤں کا دھونا عزیمت ( افضل) ہے۔ اگر اس کو جائز جان کر عزیمت اختیار کرے تو اولیٰ ہے۔جو چیزیں موزوں پر مسح جائز ہونے کیلئے ضروری ہیں
1. موزہ ایسا ہو کہ اس کو پہن کر سفر کر سکے اور مسلسل تین میل چل سکے اور پاؤں ٹخنوں سمیت ڈھک جائے۔ اگر موزہ اتنا چھوٹا ہو کہ ٹخنے موزہ کے اندر چھپے ہوئے نہ ہوں تو اس پر مسح درست نہیں ، پس موزہ میں یہ چار وصف ہونے چاہیے۔
2. ایسے دبیز ہوں کہ بغیر کسی چیز سے باندھے پیروں پر ٹھہر جائیں
3. ان کو پہن کر تین میل یا اس سے زیادہ پیدل چل سکے
4. ان کے نیچے کی جلد نظر نہ آئے
5. پانی کو جذب نہ کرتے ہوں یعنی اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو ان کے نیچے کی سطح تک نہ پہنچے پس تین قسم کے موزوں پر مسح جائز ہے
اول: چمڑے کے موزہ جن سے پاؤں ٹخنوں تک چھپے رہیں
دوم: اونی یا سوتی موزے جن میں چمڑے کا تلا مردانہ ہندی جوتے کی شکل۔پر لگا ہوا ہے
سوم: وہ اونی یا سوتی موزے جو اس قدر گاڑھے یا موٹے ہوں کہ خالی موزہ پہن کر تین میل راستہ پیدل چلنے سے نہ پھٹیں اور پنڈلی پر بغیر باندھے تھمے رہیں اور نیچے کی جلد نظر نہ آئے اور اس میں پانی نہ چھنے۔ موزوں کے کے نیچے اگر کپڑے وغیرہ کی جراب پہنے ہوئے ہو تب بھی موزوں پر مسح جائز ہے ، کپڑے وغیرہ کی جرابوں پرمسح کرنا درست نہیں ، لیکن اگر مردانہ جوتے کی شکل پر چمڑا چڑھایا گیا ہو یا وہ بہت سخت اور موٹی ہوں جیسا اوپر بیان ہوا تب ان پر مسح جائز ہے
2. مسح میں دو فرض ہیں
اول: اول موزوں کے اوپر کی جانب سے مسح کرے ،
دوم: دوم ہر پاؤں پر ہاتھ کی تین انگلیوں کی برابر مسح کرے ، ہاتھ کی تین چھوٹی انگلیوں کے برابر فرض ہے۔ اس سے کم میں مسح درست نہ ہو گا اور یہ دونوں فرضِ عملی ہیں موزے کے نیچے کی جانب یا ایڑی پر یا ساق پر یا اس کے طرف میں ٹخنے پر مسح جائز نہیں۔ اگر ایک پاؤں پر دو انگشت کی مقدار مسح کرے اور دوسرے پر چار یا پانچ انگشت مسح کرے تو جائز نہیں ،
3. مسح تین انگشت سے کرے ، اگر ایک ہی انگلی سے تین دفعہ الگ الگ جگہ پر مسح کرے اور ہر دفعہ نیا پانی لے تو جائز ہے اور نیا پانی نہ لے تو جائز نہیں ، اگر انگوٹھے اور اس کے پاس کی انگلی سے مسح کرے اور دونوں کھلی ہوئی ہوں تو جائز ہے ، اگر تین انگلیاں رکھ دے اور کھینچے نہیں تو جائز ہے مگر سنت کے خلاف ہے اگر انگلیوں کو کھڑا رکھے اور صرف انگلیوں کے سروں سے مسح کرے تو اگر پانی ٹپکتا ہوا ہو اور اس سے موزہ تین انگلیوں کی مقدار پر ہو جائے تو جائز ہے ورنہ جائز نہیں ، اگر کسی نے موزہ پر مسح نہیں کیا لیکن پانی برستے وقت باہر نکلا یا گیلی گھاس پر چلا جس سے موزہ بھیگ گیا تو مسح ہو گیا
4. موزوں پر مسح کرنا اس وقت جائز ہے جبکہ موزے پورا وضو کر کے پہنے ہوں ، اس کے بعد وضو ٹوٹا ہو، یا دونوں پاؤں دھو کر موزے پہنے ہوں اور پھر حدث ہونے یعنی وضو توڑنے والا امر واقع ہونے سے پہلے وضو پورا کر لیا ہو تو اب وضو ٹوٹنے پر اس کو موزوں پر مسح کرنا جائز ہے پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں ، صرف وضو میں موزوں پر مسح کرنا جائز ہے غسل میں نہیں ، پس اگر کسی پر نہانا واجب ہو گیا ہے تو موزے اتار کر نہائے اور جس شخص نے حدث کا تیمّم کیا ہو اس کو موزوں پر مسح جائز نہیں خواہ وہ تیمّم غسل کا ہو یا وضو کا یا دونوں کا
5. مسح اس کی مدت کے اندر جائز ہے۔ مدت گزرنے کے بعد جائز نہیں ، مسح کی مدت مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات ہے اور مسافر کے لئے تین دن اور تین رات، جس وقت سے موزے پہنے اس وقت سے مدت شروع نہیں ہو گی بلکہ موزے پہننے کے بعد جس وقت حدث ہو اس وقت سے یہ مدت شروع ہو گی، موزہ پہننے یا وضو کرنے کے وقت سے نہیں پس اگر کسی نے جمعہ کو فجر کے وقت وضو کر کے موزہ پہنے پھر عصر کے وقت اس کو حدث ہوا اور اس نے وضو میں موزہ پر مسح کیا اگر وہ مقیم ہے تو دوسرے دن یعنی ہفتہ کو عصر کے وقت اسی ساعت تک اس کے لئے مسح کی مدت باقی رہے گی جس ساعت میں اول روز حدث ہوا تھا اور اگر مسافر ہے تو چوتھے روز یعنی پیر کے دن کی اسی ساعت تک مسح کی مدت باقی رہے گی پس مقیم کبھی چھ نمازوں میں مسح کرتا اور کبھی مسح کے ساتھ صرف چار نماز پر قادر ہوتا ہے۔ مقیم نے مدت مسح یعنی ایک دن رات پورا ہونے سے پہلے سفر کیا تو سفر کی مدت تک مسح کرتا رہے۔ یعنی تین رات تک موزے پہنے رہے اور مسح کرتا رہے اور اگر دن پورا ہونے کے بعد سفر کیا تو موزہ اتار کر پیر دھو لے اور پھر موزہ پہنے اب نئے سرے سے مسح کی مدت شروع ہو گی اور اگر مسافر موزوں پر مسح کرنا شروع کرے اور ایک دن رات سے قبل گھر آ جائے یا اقامت کی نیت کر لے تو اقامت کی مسح کی مدت یعنی آٹھ پہر تک مسح کر سکتا ہے اور ایک دن رات کے بعد گھر آیا یا اقامت کی نیت کی تو اس کے مسح کی رخصت ختم ہو گئی وہ پیروں کو دھوئے اور نئے سرے سے مسح کی مدت شروع ہو گی، اگر وضو کی حالت میں موزہ اتار دیا یا وضو ہونے کی حالت میں مسح کی مدت پوری ہو گئی تو ان دونوں حالتوں میں صرف پاؤں دھو کر موزہ پہن لینا۔کافی ہے اور پورا وضو کر لینا مستحب ہے
6. موزہ بہت پھٹا ہوا نہ ہو، بہت پھٹا ہوا ہونے کی مقدار پاؤں کی تین چھوٹی نگلیاں ہیں ، خواہ سوراخ موزہ کے نیچے یا اوپر یا ایڑی کی طرف اور اگر سوراخ ٹخنے سے اوپر پنڈلی میں ہو تو یہ مسح کا مانع نہیں ہے کیونکہ یہ مسح کی حد سے باہر ہے پس اگر تین چھوٹی انگلیوں کی مقدار پاؤں کھل گیا یا چلتے میں کھل جاتا ہے تو اس پر مسح جائز نہیں ہے اور اس سے کم پھٹا ہو تو مسح جائز ہے۔ تین چھوٹی انگلیوں کی مقدار کا اعتبار اس وقت ہو گا جبکہ انگلیوں کے سوا کوئی اور جگہ کھل جائے اور اگر انگلیاں ہی کھل جائیں تو معتبر یہ ہے کہ انہی تین انگلیوں کے کھلنے کا اعتبار ہو گا حتیٰ کہ اگر انگوٹھا اور اس کو برابر والی انگلی کھل جائے تو مسح جائز ہے حالانکہ یہ سب مل کر تین چھوٹی انگلیوں کے برابر ہیں اور اگر انگوٹھا اور اس کے برابر کی دونوں انگلیاں کھل گئیں تو اب مسح جائز نہیں ، ایک موزہ کے سوراخ جمع کئے جائیں دونوں کے جمع نہ کئے جائیں گے پس اگر ایک ہو موزہ کئی جگہ سے تھوڑا تھوڑا پھٹا ہوا ہے اور اسے جمع کر کے تین انگلیوں کے برابر ہے جائے تو مسح کرنا ناجائز ہے اور کم ہو تو جائز ہے اور اگر ایک موزہ میں بقدر ایک انگشت کے اور دوسرے میں بقدر دو انگشت کے کھلا ہوا ہو تو مسح ان دونوں پر جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ مسح پھٹے ہوئے حصہ پر واقع نہ ہو بلکہ درست حصہ پر ہو، سوراخ کم از کم اتنا بڑا ہے جس میں ٹاٹ وغیرہ سینے کا سوا جا سکے اور جو اس سے کم ہو اس کا اعتبار نہیں وہ معاف ہے۔ اگر موزہ کا سیون کھل گئی لیکن اس سے پاؤں دکھائی نہیں دیتا تو مسح درست ہے اور اگر ایسا ہو کہ چلتے وقت تین انگلیوں کے برابر دکھائی دیتا ہے ویسے نہیں تو مسح درست نہیں ہے۔ موزہ پر مسح کے حکم میں مرد و عورت برابر ہیں ، دستانے جو ہاتھ پر پہنے ہوں ان پر مسح جائز نہیں ، عمامہ، ٹوپی، اور نقاب ( گھونگھٹ) پر بھی مسح جائز نہیں ہے ،