1. اگر وقت کے داخل ہونے سے پہلے تیم کر لے تو جائز ہے ،
2. ایک تیمم سے جب تک وہ نہ ٹوٹے جس قدر فرض و نفل نمازیں پڑھے جائز ہیں۔ اسی طرح نماز کے لئے جو تیمم کیا ہو اس سے فرض نماز، نفل نماز، قرآن مجید کی تلاوت، جنازے کی نماز، سجدہ تلاوت اور تمام عبادتیں جائز ہیں ،
3. جب تک پانی نہ ملے یا کوئی اور عذر باقی رہے تیمم کرنا جائز ہے اگر اسی حالت میں کئی سال گزر جائیں تو کچھ مضائقہ نہیں ، عذر کی حالت میں تیمم کرنے سے وضو اورغسل کے برابر کی پاکی حاصل ہو جاتی ہے یہ نہ سمجھے کہ اچھی طرح پاک نہیں ہوا جب تک عذر رہے یہی حکم ہے البتہ عذر دور ہونے کے بعد ناپاکی عود کر آتی ہے ،
4. اگر پانی ملنے کی امید ہو تو آخری وقت تک تاخیر کرنا مستحب ہے اور۔اگر امید نہ ہو تاخیر نہ کرے ، اور وقتِ مستحب میں تیمم کر کے نماز پڑھ لے 5. اگر پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کر لیا اور نماز پڑھ لی پھر پانی مل گیا تو اس کی نماز ہو گئی اب لوٹانے کی ضرورت نہیں خواہ وہ پانی وقت کے اندر ملا ہو یا وقت گزرنے کے بعد،
6. اگر کہیں پانی مل گیا لیکن اتنا تھوڑا ہے کہ ایک ایک دفعہ منھ اور دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت اور دونوں ٹخنوں سمیت دھو سکتا ہے تو تیمم کرنا درست نہیں ہے ان اعضا کو ایک دفعہ دھو لے اور سر کا مسح کر لے کلی وغیرہ وضو کی سنتیں چھوڑ دے اور اگر اتنا بھی نہ ہو تو تیمم کر لے ،
7. ایک ہی تیمم وضو اور غسل دونوں کے لئے کافی ہوتا ہے اگر جنبی کے پاس اتنا پانی ہو کہ اس کے کچھ اعضائے غسل یا پورے وضو کو کفایت کرتا ہے تو غسل کا تیمم کرے اور یہ تیمم غسل اور وضو دونوں کے لئے کافی ہے اس کو وضو اور بعض اعضاء غسل کو دھونے کی ضرورت نہیں پھر اگر غسل کے تیمم کے بعد وضو ٹوٹ جائے تو اب وضو کے لئے تیمم نہ کرے بلکہ اس کو وضو ہی کرنا چاہئے کیونکہ اب وہ بقدر کفایت پانی پر قادر ہے یہی حکم اس وقت بھی ہے جبکہ پانی تو کافی ہے مگر غسل کرنا نقصان کرتا ہے اور وضو کرنا نقصان نہیں کرتا،
8. جنبی کو جنازہ اور عیدین کی نماز کے لئے تیمم جائز ہے ،
۹. اگر جنازہ حاضر ہو اور ولی کے سوا دوسرے شخص کو وضو کرنے تک نمازِ جنازہ فوت ہو جانے کا خوف ہو تو تیمم جائز ہے اور اگر وضو کر کے ایک تکبیر بھی مل سکے تو تیمم جائز نہیں ، اس صورت میں ولی کے واسطے تیمم جائز نہیں (کیونکہ اس کا انتظار ضروری ہے اور اس کی اجازت سے نماز ہو گی)،
10. عورت کے لئے پانی کے ہوتے ہوئے سفر میں پانی لینے نہ جانا اور تیمم کر لینا جائز نہیں ایسا پردہ جس میں شریعت کا کوئی حکم چھوٹ جائے ناجائز و حرام ہے پس اس کو برقعہ اوڑھ کر یا سارے بدن پر چادر لپیٹ کر پانی کے لئے جانا واجب ہے البتہ لوگوں کے سامنے بیٹھ کر وضو نہ کرے اور ہاتھ منھ نہ کھولے ، اگر پانی کی جگہ جانے میں اس کو اپنی جان و مال اور عزت و آبرو و عصمت کا خوف ہو تو نہ جائے اس کو تیمم کرنا جائز ہے ،
11. جنبی کو مسجد میں بلا ضرورت جانے کے لئے تیمم جائز نہیں لیکن اگر مجبوراً جانا پڑے تو جائز ہے۔ مگر ضرورت پوری ہونے پر جلدی نکل آئے ، اسی طرح اگر مسجد میں سویا ہوا تھا اور نہانے کی ضرورت ہو گئی تو آنکھ۔کھلتے ہے جہاں سویا تھا فوراً تیمم کر کے باہر نکل آئے دیر کرنا حرام ہے 12. ریل میں سیٹوں اور گدوں پر جو گرد و غبار جم جاتا ہے اس پر تیمم جائز ہے ، یہ وہم نہیں کرنا چاہئے کہ شاید یہ غبار پاک ہے یا ناپاک،
13. ریل گاڑی میں جہاں مسافر جوتے پہن کر چلتے ہیں وہ مٹی ناپاک ہے اس سے تیمم کرنا درست نہیں ،
14. اگر کسی آدمی کے آدھے سے زیادہ جسم پر زخم یا چیچک نکلی ہو تو تیمم کرنا درست ہے ،
15. اگر سفر میں کسی دوسرے آدمی کے پاس پانی ہے اور اس کا گمان غالب یہ ہو کہ اگر اس سے پانی مانگوں گا تو مل جائے گا تو بغیر مانگے تیمم کرنا درست نہیں اور گمان غالب یہ ہو کہ مانگنے سے وہ شخص پانی نہیں دے گا تو تیمم کر کے نماز پڑھ لینا درست ہے لیکن اگر نماز پڑھنے کے بعد اس سے پانی مانگا اور اس نے دے دیا تو نماز کو دہرانا پڑے گا، اسی طرح اگر نماز کی حالت میں کسی شخص کے پاس پانی دیکھا اور اس کو گمان غالب یہ ہے کہ مانگنے سے دے دے گا تو نماز قطع کر دے اور پانی مانگے اگر وہ دے دے تو وضو کرے اور اگر نہ دے تو اس کا وہی تیمم باقی ہے اور اگر نہیں مانگا اور نماز پوری کر لی پھر اس نے ازخود یا مانگنے پر پانی دے دیا تو اعادہ لازم ہے اور اگر نہ دے تو اعادہ لازم نہیں اور گمان غالب نہ ہو صرف شک ہو تو نماز نہ توڑے اور پوری کرنے کے بعد پانی مانگے پھر اگر ازخود یا مانگنے سے دے دے تو وضو کر کے نماز کا اعادہ کرے اور اگر نہ دے تو وہی نماز کافی ہے ،
16. اگر وہ عذر جس کی وجہ سے تیمم کیا گیا ہے بندوں کی طرف سے ہو تو جب عذر جاتا رہے جس قدر نمازیں اس تیمم سے پڑھی ہیں سب دوبارہ پڑھنی چاہئیں مثلاً کوئی شخص جیل خانہ میں ہو اور وہاں کے ملازم اس کو پانی نہ دیں یا مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ اگر تو وضو کرے گا تو تجھ کو مار ڈالوں گا ایسی صورت میں تیمم کر کے نمازیں ادا کرے اور عذر دور ہونے پر سب نمازوں کو دوبارہ پڑھنا چاہئے ،
17. اگر پانی پر بھی قادر نہ ہو اور مٹی سے تیمم پر بھی قادر نہ ہو تو بلا طہارت نماز پڑھ لے پھر عذر دور ہونے پر اس کو طہارت کے ساتھ لوٹانا لازمی ہے