1. کنوئیں کے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اس چیز کو نکالنا چاہئے جس کے گرنے سے کنواں ناپاک ہوا ہے پھر شریعت کے حکم کے مطابق اس کا پانی نکالنا چاہئے جب تک کہ وہ چیز نہ نکالی جائے کنواں پاک نہیں ہو گا۔ خواہ کتنا ہی پانی کیوں نہ نکالا جائے لیکن اگر وہ نجاست ایسی ہے جو باوجود کوشش کے نکل نہیں سکتی تو اس کی دو سورتیں ہیں۔ایک یہ کہ اس چیز کی ناپاکی اپنی اصلی ہو خارجی نجاست سے ناپاک نہ ہوئی ہو۔جیسے مردہ جانور یا اس کا گوشت یا وہ جو کنوئیں میں گر کر مر گیا اس صورت میں کنوئیں کو اتنی مدت تک چھوڑ دینا چاہئے جس میں یہ یقین ہو جائے کہ وہ ناپاک چیز گل سڑ کر مٹی ہو گئی بعض نے اس کی مقدار چھ مہینہ لکھی ہے پھر اس کے بعد اس کا بقدر واجب پانی نکال دیا جائے تو کنواں پاک ہے جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ناپاک چیز خود اپنی اصل سے ناپاک نہ ہو بلکہ خارجی نجاست لگنے سے ناپاک ہو گئی ہو جیسے ناپاک کپڑا۔ لکڑی۔ جوتی۔گیند وغیرہ اس صورت میں اس چیز کا نکالنا معاف ہے بقدر واجب پانی نکال دینے سے کنواں پاک ہو جائے گا اور کنوئیں کے پاک ہوتے ہی وہ چیز بھی پاک ہو جائے گی
2. جن صورتوں میں کنوئیں کا تمام پانی ناپاک ہو جاتا ہے اور اس کا پانی ٹوٹ سکتا ہے تو اس کنوئیں کے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کل پانی نکال دیا جائے پس جب پانی اس قدر نکل جائے کہ پانی ٹوٹ جائے اور آدھا ڈول بھی نہ بھرے تو کنوئیں کے اندر کے کنکر۔دیوار وغیرہ ڈول رسی چرخی اور کھینچنے والے کے ہاتھ پیر سب پاک ہو جائیں گے اب ان کو الگ دھونے۔کی ضرورت نہیں
3. اگر کنواں چشمہ دار ہے یعنی ایسا ہو کہ جس کا تمام پانی نہ نکل سکے بلکہ ساتھ ساتھ نیا پانی اتنا ہی آتا رہے تو اس کے پاک کرنے کے فقہا نے مختلف طریقے لکھے ہیں ان میں سب سے بہتر اور موزوں طریقہ یہ ہے کہ کنوئیں میں رسی ڈال کر ناپ لیا جائے کہ کتنے ہاتھ پانی ہے پھر کچھ ڈول نکال کر رسی سے ناپ لیا جائے کہ کتنے ہاتھ پانی کم ہو گیا اور حساب کر لیا جائے کہ باقی پانی کے لئے کتنے ڈول اور نکالے جائیں۔مثلاً رسی ڈال کر دیکھا تو معلوم ہو کہ دس ہاتھ پانی ہے۔ سو ڈول نکالنے کے بعد رسی ڈال کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک ہاتھ پانی کم ہو گیا لہذا اب نو سو ڈول اور نکال دئے جائیں تو کنوئیں کا کل پانی نکل جائے گا اور کنواں وغیرہ پاک ہو جائے گا
4. جن صورتوں میں پانی کی ایک خاص مقدر نکالنی پڑتی ہے اسقدر پانی خواہ ایک دم سے نکالیں یا تھوڑا تھوڑا کر کے کئی دفعہ میں وقفہ دے کر نکالیں ہر طرح پاک ہو جائے گا
5. جن صورتوں میں کنوئیں کا سارا پانی نکالنا واجب ہو اور پانی ٹوٹ سکتا ہے تو پانی لگاتار نکالا جائے اس میں وقفہ نہ دیا جائے یہاں تک کہ پانی ٹوٹ جائے اور آدھا ڈول بھرنے سے رہ جائے تب کنواں پاک ہو گا اور اگر وقفہ دے کر مثلاً کچھ دیر صبح کو اور کچھ دیر دوپہر کو اور کچھ دیر شام کو نکالا تو خواہ کتنا ہی پانی نکالا جائے کنواں پاک نہیں ہو گا۔اس کے علاوہ سب صورتوں میں یعنی جن صورتوں میں تعداد مقرر ہے یا چشمہ دار ہونے کی وجہ سے پیمائش وغیرہ کے ذریعہ مقرر کر لی گئی ہے لگاتارنکالنا ضروری نہیں بلکہ متفرق وقتوں میں وہ مقدار پوری کر سکتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے
6. اگر کنوئیں میں پانی اس قدر کم ہو جس قدر ڈول نکالنے واجب ہیں تو جس قدر موجود ہے اسی قدر نکالنا کافی ہے
7. جس کنوئیں پر جو ڈول پڑا رہتا ہے اس کے حساب سے نکالنا چاہئے اور اگر کنوئیں پر کوئی خاص ڈول نہ ہو یا کنوئیں کا خاص ڈول بہت بڑا یا بہت چھوٹا ہو جن صورتوں میں ڈول نکالنے کی تعداد مقرر ہے۔ درمیانی ڈول کا اعتبار ہے۔درمیانی ڈول وہ ہے جس میں ساڑھے تین سیر پانی آتا ہو پس اس کا حساب کر کے جس قدر ڈول بنیں نکالے جائیں۔مثلاً اگر بڑے ڈول میں چار ڈول کے برابر پانی سماتا ہو تو اس کو چار ڈول سمجھنا چاہئے۔ ڈول بھرا ہوا نکالنا ضروری نہیں۔اگر کچھ پانی چھلک گیا یا ٹپک گیا مگر آدھے سے زیادہ ہو تو پورا ڈول شمار ہو گا۔
8. ناپاک کنواں اگر بالکل خشک ہو جائے اور تہ میں تری نہ رہے تب بھی پاک ہو جائے گا اس کو بعد کنوئیں مین دوبارہ پانی نکل آئے تو اب پہلی ناپاکی کی وجہ سے دوبارہ ناپاک نہیں ہو گا اور اگر تہ پوری طرح خشک نہیں ہوئی تو اب دوبارہ پانی آنے سے ناپاک ہو جائے گا
مقید پانی
مطلق پانی یعنی جس پانی سے وضو غسل جائز ہے اس کا بیان گذر چکا ہے اس مقید اور دیگر پانیوں کی تفصیل بیان کی جاتی ہے۔ جن سے وضو و غسل جائز نہیں۔
1. جو پانی درخت یا پھل یا سبزی وغیرہ کو نچوڑ کر نکالا جائے یا خود ٹپک۔کر نکلے جیسے خربوزہ کھیرا۔ککڑی تربوز اور گلاب وغیرہ کا پانی
2. ہر قسم کا شربت مثلاً شربتِ صندل۔سونف۔کانسی وغیرہ
3. ہر قسم کی دوائی وغیرہ کا کھینچا ہوا عرق۔
4. سرکہ
5. نمک جو پگھل کر پانی بن جائے۔
6. صابن یا اشتان( سجی) کا پانی جبکہ اس کا پتلا پن جاتا رہے اور گاڑھا ہو جائے۔
7. زعفران اور کُسم کا پانی جبکہ سرخی غالب ہو اور گاڑھا ہو جائے
8. مازو یا پھٹکری پانی میں اس قدر ملی ہوئی ہو کہ اس سے لکھنے سے نقش۔ظاہر ہوں۔
۹. مٹی وغیرہ ملا ہوا پانی جبکہ اس قدر گاڑھا ہو کہ کیچڑ بن جائے
10. جس پانی میں گیہوں یا چنے یا باقلا وغیرہ اُبالے جائیں اور اس میں ان کی بو آ جائے
11. شوربہ
12. سرکہ یا دودھ یا زعفران وغیرہ جس کا رنگ یا ذائقہ پانی کے مخالف ہے پانی میں ملایا جائے اور اب اس کا نام پانی نہ رہے۔اگر وہ چیز رنگ دار ہو جیسے دودھ وغیرہ تو غلبہ کا اعتبار رنگ سے کیا جائے گا اور اگر رنگ میں مخالف نہیں اور ذائقہ میں مخالف ہے جیسے سرکہ وغیرہ تو ذائقہ کا اعتبار کیا جائے گا اور اگر رنگ و ذائقہ دونوں میں مخالف نہیں جیسے گلاب وغیرہ تو مقدار کی زیادتی کا اعتبار کیا جائے گا اور اگر مقدار میں دونوں برابر ہوں گے۔تو احتیاطاً پانی مغلوب سمجھا جائے گا اور وضو جائز نہیں ہو گا
مستعمل پانی
1. مستعمل پانی خود پاک ہے اگر کسی پاک چیز کو لگ جائے تو اس کے ناپاک نہیں کرتا اسی پر فتویٰ ہے
2. مستعمل پانی پاک کرنے والا نہیں اوراس سے وضو یاغسل وغیرہ جائز نہیں 3. جس پانی سے وضو یا غسل کیا جائے یا وہ پانی کسی عبادت کی نیت سے استعمال کیا جائے تو صحیح یہ ہے کہ جس وقت وہ عضو سے جدا ہو گا۔مستعمل ہو جائے گا
4. اگر اعضائے وضو کے سوا کسی اور وضو مثلاً ران یا پیٹ یا پنڈلی کو دھوئے تو اصح یہ ہے کہ پانی مستعمل نہ ہو گا اور اگر اعضائے وضو کو۔دھوئے گا تو مستعمل ہو جائے گا
5. اگر کسی شخص نے مٹی یا آٹا یا میل چھڑانے کے لئے وضو کیا یا پاک۔شخص نے ٹھنڈا ہونے کے لئے غسل کیا تو پانی مستعمل نہ ہو گا
6. اگر وضو والا آدمی کھانا کھانے کے واسطہ یا کھانا کھا کر ہاتھ دھوئے تو وہ دھوون کا پانی مستعمل ہو جائے گا کیونکہ قربت کی نیت سے استعمال ہوا ہے
7. اگر جنبی نے غسل کیا اور اس کے غسل کا کچھ مستعمل پانی اس کے برتن میں ٹپک گیا تو برتن کا پانی خراب نہیں ہو گا جب تک مستعمل پانی غالب نہ آ جائے یعنی غیر مستعمل پانی کے برابر یا اس سے زیادہ نہ ہو جائے۔اسی طرح اگر وضو کا کچھ مستعمل پانی وضو کے برتن میں ٹپکا تو جب تک مستعمل پانی غالب نہ آ جائے پاک ہے اور جب مستعمل پانی کی مقدار غیر مستعمل پانی کےبرابر یا زیادہ ہو جائے تو اس سے وضو و غسل ناجائز ہے
8. اگر رومال سے اپنی اعضائے وضو یا غسل پونچھے اور رومال خوب بھیگ گیا یا اس کے اعضا سے قطرے ٹپک کر کسی کپڑے پر بہت زیادہ لگ گئے تو۔بالاتفاق اس کے ساتھ نماز جائز ہے
۹. مستعمل پانی اگرچہ ظاہر مذہب میں پاک ہے لیکن اس کو پینا اور اس سے آٹا گوندھنا کراہتِ تنزیہی اور طبعی نفرت کی وجہ سے مکروہ ہے اور جن کے نزدیک مستعمل پانی نجس ہے ان کے نزدیک پینا و آٹا گوندھنا وغیرہ مکروہ تحریمی ہے
10. مستعمل پانی نجاست حکمی کو پاک کرنے والا نہیں لیکن نجاست حقیقی کو پاک کرنے والا ہے یہی راجح ہے
11. مستعمل پانی میں اگر اچھا پانی اس سے زیادہ ملا لیا جائے یا اسے جاری کر لیا جائے تو نجاستِ حکمی کے پاک کرنے میں ( یعنی وضو و غسل) میں کام آ۔سکتا ہے
آدمی اور جانوروں کے جھوٹے پانی کا بیان
1. آدمی کا جھوٹا پاک ہے خواہ وہ جنبی ہو یا حیض و نفاس والی عورت ہو خواہ وہ کافر ہو لیکن اگر کسی کا منہ ناپاک ہے تو اس کا جھوٹا نجس ہو جائے گا۔مثلاً شراب پینے والا اگر اس وقت پانی پئے تو اس کا جھوٹا نجس ہو گا لیکن اگر کچھ دیر بعد پئے کہ اس عرصہ میں کئی بار تھوک نگل چکا ہو اور جہاں شراب لگی ہو وہ جگہ تھوک سے صاف ہو چکی ہو تو صحیح یہ ہے کہ اب اس کا منہ پاک ہو جائے گا۔ شرابی کے جھوٹے سے ہر حالت میں بچنا ہی چاہئے
2. عورت کا جھوٹا اجنبی مرد کے لئے اور اجنبی مرد کا جھوٹا عورت کے لئے مکروہ ہے یہ ناپاکی کی وجہ سے نہیں بلکہ لذت پانے کی وجہ سے ہے۔اس لئے اگر معلوم نہ ہو یا لذت حاصل کرنے کے لئے نہ ہو تو کوئی حرج نہیں
3. حلال چرندوں و پرندوں کا جھوٹا پاک ہے اگرچہ نر ہوں جیسے گائے۔ بکری۔بیل۔ کبوتر۔ فاختہ وغیرہ لیکن ان میں سے جو جانور نجاست بھی کھاتا ہو مثلاً آزاد مرغی اور اونٹ و بیل وغیرہ تو ان کا جھوٹا مکروہ ہے ان کے دودھ اور گوشت کا بھی یہی حکم ہے۔اگر مرغی وغیرہ نے نجاست کھائی اور اسی وقت پانی پیا تو پانی نجس ہو جائے گا۔
4. گھوڑے کا جھوٹا بالاجماع پاک ہے۔
5. جن جانوروں میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا خواہ پانی مین رہتے ہوں یا خشکی میں ان کا جھوٹا مکروہِ تنزیہی ہے
6. کیڑے جو گھروں میں رہتے ہیں جیسے سانپ۔ نیولا۔چھپکلی وغیرہ دیگر جانور اور چوہا اور بلی ان کا جھوٹا مکروہِ تنزیہی ہے۔ بلی کا جھوٹا کھانا یا پینا مالدار کے لئے مکروہ ہے کیونکہ وہ اس کے بجائے دوسرا کھانا لے سکتا ہے۔ لیکن فقیر کے لئے جو اس کے بجائے دوسرا کھانا نہیں لے سکتا ضرورت کی وجہ سے مکروہ نہیں ہے۔ اگر بلی نے کوئی جانور چاہا وغیرہ کھا کر فوراً پیا تو اس کا جھوٹا ناپاک ہے اور کچھ دیر ٹھہر کر پیا کہ اس عرصہ میں وہ اپنا منہ کئی دفعہ چاٹ کر صاف کر چکی ہے تو اس کا جھوٹا ناپاک نہیں ہے۔ بلکہ مکروہ ہے
7. شکاری پرندوں مثلاً شکرا۔باز۔چیل وغیرہ کا جھوٹا مکروہ ہے۔اسی طرح ان پرندوں کا جھوٹا بھی مکروہ ہے جن کا گوشت کھایا نہیں جاتا۔کوے کا جھوٹا بھی مکروہ ہے۔اچھے پانی کے ہوتے ہوئے مکروہ پانی سے وضو کرنا مکروہ ہے اور اگر اچھا پانی نہ ملے تو مکروہ نہیں
8. خنزیر کتا شیر چیتا بھیڑیا ہاتھی گیدڑ اور دوسرے درندوں چوپایوں کا جھوٹا نجس ہے۔کتے کے چاٹے برتن کا تین بار دھونا واجب ہے اور سات۔بار دھونا اور پہلی اور آخری مرتبہ مٹی سے بھی ملنا مستحب ہے
۹. خچر اور گدھے کا جھوٹا مشکوک ہے یعنی وہ خود پاک ہے لیکن پاک کرنے والے ہونے میں شک ہے۔مشکوک پانی کے سوا اور پاک پانی نہ ملے تو اس سے وضو کرے اور تیمم بھی کرے ان دونوں کو جمع کرنا واجب ہے صرف ایک کو کافی سمجھنا جائز نہیں دونوں میں چاہے جس کے پہلے کرے لیکن وضو کو مقدم۔کرنا افضل ہے ایسے پانی سے وضو کرنے میں احتیاطاً نیت بھی کر لے۔
10. ہر جانور کے پینے اور لعاب میں اس کے جھوٹے کا اعتبار کیا جائے گا
جن صورتوں میں پانی نجس نہیں ہوتا
1. چمگادڑ کے پیشاب اور بیٹ سے پانی و کپڑا نجس نہیں ہوتا
2. جس جانور میں بہتا ہوا خون نہیں ہے جیسے مکھی۔مچھر۔بھڑ۔چیونٹی۔و بچھو وغیرہ پانی میں مر جائے تو پانی نجس نہیں ہو گا
3. جو جانور پانی میں پیدا ہوتے ہیں اور رہتے ہیں ان کے پانی میں مرنے سے بھی پانی ناپاک نہیں ہوتا جیسے مچھلی۔مینڈک اور کیکڑا۔اس مین فرق نہیں کہ وہ پانی میں مرے یا باہر مرے پھر پانی میں ڈال دیں۔اگر پھول یا پھٹ جائے تب بھی یہی حکم ہے مگر وہ پانی پینا مکروہ ہے
4. جو جانور پیدائشی پانی کے نہ ہوں مگر وہ پانی میں رہتے ہوں جیسے بطخ۔مرغابی وغیرہ ان کے پانی میں مرنے سے پانی ناپاک ہو جاتا ہے
5. خنزیر کے سوا ہر جاندار کے بال ہڈی۔پٹھا۔کھر(سم) چرا ہوا یا بے چرا پاک ہیں۔ جبکہ ان پر چکنائی نہ لگی ہو ورنہ چکنائی کی وجہ سے ناپاک ہوں گے۔آدمی کے بال ہڈی کا بھی یہی حکم ہے جبکہ بال منڈھے ہوئے یا کٹے ہوئے ہوں اگر اکھڑے ہوئی ہوں تو نجس ہوں گے
6. اصح یہ ہے کہ مشکِ نافہ ہر حالت میں پاک ہے اور ذبح کئے ہوئے۔جانور کا مشک نافہ بالاتفاق پاک و حلال ہے
7. خنزیر کے تمام اجزا نجس ہیں
8. جس پرندہ کا گوشت حرام ہے اس کی بیٹ کنوئیں میں گرے تو دفع حرج کے۔سبب پاک ہے
پانی۔ متفرقات
1. وہ کوزہ جو گھر میں زمین پر اس لئے رکھ دیتے ہیں کہ ان سے مٹکوں میں سے پانی نکالیں گے تو ان سے پانی پینا اور وضو کرنا جائز ہے۔ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ ان پر نجاست لگی ہے
2. ایسے حوض سے وضو و غسل جائز ہے جس کے متعلق یہ گمان ہو کہ اس میں نجاست پڑی ہو گی مگر یقین نہ ہو اور اس پر یہ واجب نہیں کہ اس کا حال پوچھے اور جب تک اس میں نجاست ہونے کا یقین نہ ہو جائے اس سے وضو کرنا ترک نہ کرے
3. اگر جنگل میں تھوڑا پانی مل ا تو جب تک اس کی نجاست کا یقین نہ ہو اس میں سے پانی لے کر وضو کرنا جائز ہے۔ صرف اس وہم پر وضو نہ چوڑے کہ شاید یہ نجس ہو۔اس کے ہوتے ہوئے تیمم جائز نہیں ہے۔ اور اگر اس کا ہاتھ نجس ہو اور اس کے ساتھ کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس میں سے پانی نکال سکے تو پاک رومال وغیرہ پانی میں ڈال کر تر کرے اور رومال سے پانی ہاتھ پر ہاتھ کو پاک کر لے۔
4. اگر بچے یا بڑے آدمی جاہل و کافر وغیرہ ڈول یا رسی پر ہاتھ لگاتے ہیں تو جب تک نجاست کا یقین نہ ہو ڈول اور رسی پاک ہے۔اگر کوئی کافر یا کوئی بچہ اپنا ہاتھ پانی میں ڈال دے تو پانی نجس نہیں ہوتا لیکن اگر معلوم ہو جائے کہ اس کے ہاتھ میں نجاست لگی ہوئی تھی تو ناپاک ہو جائے گا لیکن چھوٹے بچہ کے ہاتھ کا اعتبار نہیں۔اس لئے جب تک کوئی اور پانی نہ ملے اس کے ہاتھ ڈالے ہوئے پانی سے وضو نہ کرنا بہتر ہے اگر کر لے تو جائز ہے
5. جب پانی نجاست کے پڑنے سے نجس ہو جائے اگر اس کے تینوں اوصاف یعنی رنگ و بو و مزہ بدل جائیں تو اس کو کسی طرح کام میں نہ لائے۔ جانوروں کو پلانا اور مٹی ڈال کر گارا بنانا بھی جائز نہیں اور وہ پیشاب کی طرح نجس ہو گا اور اگر تینوں اوصاف نہیں بدلے تو اس میں سے جانوروں کو پلانا اور مٹی بھگو کر گارا بنانا اور مکان میں چھڑکاؤ کرنا جائز ہے مگر وہ گارا مٹی مسجد۔کی دیواروں وغیرہ پر نہ لگائی جائے۔
6. جاری یا بند پانی میں پیشاب کرنا مکروہ ہے
7. اگر پانی دھوپ سے گرم ہو جائے تو اس سے وضو کرنا جائز ہے۔لیکن۔بہتر نہیں مکروہ ہے اور اس سے برص ( سفید داغ) ہو جانے کا ڈر ہے
8. کسی کنوئیں وغیرہ میں درخت وغیرہ کے پتے گر پڑے اور پانی میں بدبو آنے لگی اور رنگ و مزہ بھی بدل گیا تو بھی اس سے وضو درست ہے جب تک کہ پانی اسی طرح پتلا رہے ( جس کنوئیں کے پانی میں نہ نکلنے کی وجہ سے بدبو ہو جائے اس سے بھی وضو درست ہے )
۹. اگر جاری پانی آہستہ آہستہ بہتا ہو تو بہت جلدی جلدی وضو نہ کرے تاکہ جو مستعمل پانی اس میں گرتا ہے وہی ہاتھ میں نہ آ جائے۔دہ دردہ ( دس گز) حوض میں جہاں مستعمل پانی گرا ہو اگر وہیں سے پھر پانی اٹھا لے تو بھی جائز ہے