(1) خصی جانور کی قربانی کرنا جائز بلکہ افضل ہے۔(سنن ابی داؤد ج2ص386 باب ما یستحب من الضحایا)
(2)اگر کوئی آ دمی عقیقہ کی نیت سے قربانی کے جانور میں اپنا حصہ رکھ لے تو یہ جائز ہے۔(فتاویٰ عالمگیریہ ج5ص375)
(4)ایسا لنگڑا جانور جو چلتے وقت پاؤں زمین پر بالکل نہ رکھ سکتا ہو اس کی قربانی جائز نہیں البتہ اگر وہ چلنے میں اس پاؤں سے کچھ سہارا لیتا ہوتو اس کی قربانی جائز ہے۔(سنن ابی داؤد:ج2،ص387،ردالمحتار:ج9:ص 536 کتا ب الاضحیہ)
(4) اگر جانور کے اکثر دانت ٹوٹے ہوئے ہوں کہ چارہ بھی نہ کھا سکتا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں، ہا ں اگر چارہ کھا سکتا ہو تو قربانی جائز ہے۔(ردالمحتار ج9 ص 537 کتا ب الاضحیہ)
(5) جس جانور کی پیدائشی طور پر ایک یا دونوں کان نہ ہوں یا کان کا تیسرا یا اس سے زیادہ حصہ کٹا یا چرا ہوا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔ ہاں اگر تیسرے سے کم حصہ کٹا ہوا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔(جامع الترمذی:ج1،ص275،باب الاضاحی، ردالمحتار:ج9،ص537)
(6) اگر جانور کا سینگ ٹوٹا ہوا ہے لیکن جڑ سے نہیں اکھڑا تو اس کی قربانی جائزہےاوراگر جڑ سے اکھڑ چکا ہو تو اس کی قربانی جا ئز نہیں۔(سنن الطحاوی:ج2،ص271باب العیوب التی لایجوزالھدایاوالضحایا،ردالمحتار:ج9 ص535 کتاب الاضحیہ)
(7) جانور کی دم اگر تہائی سے کم کٹی ہوئی ہو تو قربانی جائز ہے اگر تہائی یا اس سے زائد کٹی ہوئی ہو تو قربانی جا ئز نہیں ہے۔(اعلاءالسنن:ج17ص237، فتاویٰ عالمگیریہ:ج5ص368)
(8) گائے یا بھینس وغیرہ کا ایک تھن خراب اور باقی تین ٹھیک ہوں تو قربانی جائز ہے اور اگر دو تھن خراب ہوں تو قربانی جا ئز نہیں۔ اسی طرح بکری وغیرہ کا ایک تھن خراب ہو تو قربانی جائز نہیں۔
(المعجم الاوسط:ج2ص374 رقم 3578،فتاویٰ عالمگیریہ ج5ص683)
(9) جانور اگر اندھا ہو یا کانا ہو یا ایک آنکھ کی تہائی یا اس سے زائد روشنی نہ ہو تو اس کی قربانی جا ئز نہیں ہاں اگر روشنی تہائی سے کم جاتی رہے تو قربانی جائز ہے۔(فتاویٰ عالمگیریہ ج5ص368)
(10) ذبح کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان ہو، لہٰذا مشرک ، مجو سی، بت پرست، اور مرتد کا ذبیحہ حرام ہے۔ (بدائع الصنائع ج4ص164)