قربانی کا وقت شہروالوں کے لیے نماز عید ادا کر نے کے بعد اور دیہات والوں کے لیے جن پر نماز جمعہ فرض نہیں ،صبح صادق سے شروع ہوجاتاہےلیکن سورج طلوع ہونے کے بعد ذبح کرنابہتر ہے۔(فتاویٰ قاضیخان، فتاویٰ شامی)
چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
’’سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ فَقَالَ:اِنَّ اَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِہِ مِنْ یَوْ مِنَا ھٰذَا اَنْ نُّصَلِیَّ ثُمَّ نَرْ جِعَ وَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ فَقَدْ اَصَابَ سُنَّتَنَا وَمَنْ نَحَرَفَاِنَّمَا ھُوَ لَحْمٌ یُقَدِّمُہُ لِاِھْلِہِ لَیْسَ مِنَ النُّسِکِ فِیْ شَئْیٍ‘‘۔(صحیح البخا ری:ج 2،ص834 کتا ب الاضاحی باب الذبح)
ترجمہ:میں نے نبی ﷺ سے سنا آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ہمارےاس عید کے دن میں سب سے پہلا کام یہ ہے ہم نماز پڑھیں پھر واپس آکر قربانی کریں جس نے ہمارے اس طریقہ پر عمل کیا یعنی عید کے بعد قربانی کی تو اس نے ہما رے طریقے کے مطابق درست کام کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کر دی تو وہ ایک گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کیاہے اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عید سے پہلے قربانی کرنے سے منع فرمایا ہے، دیہات میں چونکہ نماز عیدکا حکم نہیں ہے،اس لئے وہاں اس شرط کا وجود ہی نہیں تو ان کے لیے یہ حکم نہ ہوگا۔ وہاں قربانی کے وقت کا شروع ہونا ہی کافی ہوگا اور اس کا آغاز طلوع فجر سے ہو جاتا ہے۔