جوجانور قربانی کے لیے ذبح کئے جا سکتے ہیں :بھیڑ،بکری،گائے، بھینس،اونٹ(نر،مادہ) ہیں۔
دلیل :قال اللہ تعالیٰ: ’’ثَمَانِیَۃَ اَزْوَاجٍ مِّنَ الضَاْ نِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ … وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ‘‘
(انعام: 143، 144)
ترجمہ: آٹھ جانور ہیں دو بھیڑوں میں سے اور دو بکریوں میں سے ، دو اونٹوں میں سے اور دو گائیوں میں سے۔
فائدہ: قربانی کے جانوروں میں بھینس بھی داخل ہے کیونکہ یہ بھی گائے کی ایک قسم ہے ،لہذا بھینس کی قربانی بھی جائز ہے۔
اجماع امت :
’’وَاَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّ حُکْمَ الْجَوَامِیْسِ حُکْمُ الْبَقَرِ۔‘‘(کتاب الاجماع لابن المنذر:ص37)
ترجمہ: ائمہ حضرات کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس کا حکم گائے والا ہے۔
لغت:
’’اَلْجَا مُوْسُ ضَرْبٌ مِّنْ کِبَا رِ الْبَقَرِ‘‘(المنجد:ص101)
ترجمہ: بھینس گائے کی ایک قسم ہے۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے۔
’’اَلْجَا مُوْسُ بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ:ج7،ص65 رقم:10848)
تر جمہ: بھینس گائے کے درجہ میں ہے۔
امام مالک بن انس مدنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’اِنَّمَا ھِیَ بَقَرٌ کُلُّہَا‘‘(مؤطا امام مالک:ص294 ،باب ما جا ء فی صدقۃ البقر)
ترجمہ: یہ بھینس گائے ہی ہے(یعنی گائے کے حکم میں ہے)
ایک مقام پرفرماتے ہیں۔
’’اَلْجَوَامِیْسُ وَالْبَقَرُ سَوَائٌ‘‘(کتاب الاموال لابن عبید:ج2،ص385،رقم:812)
ترجمہ: گائے اور بھینس برابر ہیں (یعنی ایک قسم کی ہیں)
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’تُحْسَبُ الْجَوَا مِیْسُ مَعَ الْبَقَرِ‘‘(مصنف عبدالرزاق:ج4ص23،رقم الحدیث:6881)
ترجمہ: بھینسوں کو گائے کے ساتھ شمار کیا جائے گا۔
فائدہ: حلال جانور کے سات اعضاء کھانا مکروہ ہیں۔
دلیل:
عَنْ مُجَاھِدٍقَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکْرَہُ مِنَ الشَّاۃِ سَبْعًا،اَلدَّمَ وَالْحَیَائَ وَالْاُنْثَیَیْنِ وَالْغُدَّ وَالذَّکَرَ وَالْمَثَانَۃَ وَالْمَرَارَۃَ(مصنف عبدالرزاق ج4ص409،سنن الکبری للبیہقی:ج10،ص7)
ترجمہ: حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بکری کے سات اعضاء کھانے کوپسند نہیں کرتے تھے۔
(1)خون(2)مادہ جانور کی شرمگاہ (3)خصیتین (4)غدود(5)نرجانورکی پیشاب گاہ (6)مثانہ (7)پِتَّہ
(5)جانورکی عمر:
قربانی کے جانوروں میں بھیڑ،بکری ایک سال،گائے،بھینس دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے،البتہ وہ بھیڑ اور دنبہ جو دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
دلیل: ’’عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّۃً اِلَّا اَنْ یُّعْسَرَ عَلَیْکُمْ فَتَذْ بَحُوْا جَذْ عَۃً مِّنَ الضَأنِ‘‘(صحیح مسلم:ج2،ص155باب سن الاضحیہ)
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ پاک ﷺ نے فرمایا: قربانی کے لیے عمر والا جانور ذبح کرو ،ہاں اگر ایسا جانور میسر نہ ہو تو پھر چھ ما ہ کا دنبہ ذبح کرو جو سال کا لگتا ہو۔
اس حدیث میں دو باتیں قابل غور ہیں:
نمبر1: اس میں آپ ﷺ نے قربانی کے جانور کے لیے لفظ ’’مسنہ‘‘ استعمال فرمایا ہے،بقول امام ترمذی رحمہ اللہ فقہاء کرام احادیث کے معانی ومطالب زیادہ جانتے ہیں۔ (جامع الترمذی:ج1،ص193 باب غسل المیت)
چنانچہ جمہور فقہاء کرام رحمہم اللہ نے ’’مسنہ ‘‘ کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ اس سے مراد ’’الثنی‘‘ یعنی وہ جانور ہے جس میں عمر کا لحاظ رکھا گیا ہو، چنانچہ بھیڑ،بکری ایک سال کی ہو،گائے اوربھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہو۔ چند تصریحات ملاحظہ ہوں:
(1)مشہور محدث وفقیہ علامہ ابوالحسین القدوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔
’’اِنَّ الْفُقَہَائَ قَالُوْا…وَالثَّنی[مِنَ الْغَنَمِ اِبْنُ سَنَۃٍ] وَالثَّنی مِنْہُ [مِنَ الْبَقَرِ ]اِبْنُ سَنَتَیْنِ وَالثَّنی[مِنَ الْاِبِلِ ] اِبْنُ خَمْسٍ‘‘(الفتاویٰ عالمگیریہ:ج5،ص367)
ترجمہ: حضرات فقہاء کرام یہ فرماتے ہیں کہ بھیڑ،بکری ایک سال کی، گائے دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہو۔
(2)محدث وفقیہ علامہ زین الدین ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’وَالثَّنی مِنَ الضَّأ نِ وَالْمَعْزِ اِبْنُ سَنَۃٍ وَمِنَ الْبَقَرِ اِبْنُ سَنَتَیْنِ وَمِنَ الْاِبِلِ اِبْنُ خَمْسِ سِنِیْنَ‘‘
(البحر الرائق:ج8ص201 کتاب الاضحیہ)
ترجمہ: بھیڑاوربکری ایک سال کی،گائے دوجبکہ اونٹ پانچ سال کا ہو۔
اور یہی تعریف مندرجہ ذیل کتب میں بھی موجود ہے:
(1)بذل المجہود:ج4ص71 (2) تکملہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم:ج3ص558
نمبر2: مذکورہ حدیث میں’’مسنہ‘‘ نہ ملنے کی صورت میں’’جَذْعَۃٌ مِّنَ الضَّأنِ‘‘ کا حکم فرمایا اس سے مراد وہ دنبہ ہے جو چھ ماہ کا ہو۔مگر دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو۔چنانچہ علامہ زین الدین ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’وَقَالُوْا ھٰذَا اِذَاکَانَ الْجَذَعُ عَظِیْماً بِحَیْثُ لَوْخَلَطَ بِالثَّنِیَّاتِ یَشْتَبِہُ عَلَی النَّا ظِرِیْنَ وَالْجَذَعُ مِنَ الضَّأ نِ مَا تَمَّتْ لَہُ سِتَّۃُ اَشْھُرٍ عِنْدَ الْفُقَہَاء‘‘(البحر الرائق:ج8ص202 کتاب الاضحیہ)
ترجمہ: حضرات فقہاء فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ دنبہ ہے جو اتنا بڑا ہو اگراس کوسال والے دنبوں میں ملا دیا جائے تو دیکھنے میں سال والوں کے مشابہ ہو اور حضرات فقہاء کے نزدیک جذع (دنبہ) وہ ہے جو چھ ماہ مکمل کر چکا ہو۔