قربانی ایک عظیم الشان عبادت ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے شروع ہوئی اور اُمتِ محمدیہ علی صاحبہا السلام تک مشروع چلی آرہی ہے، ہر مذہب وملت کا اس پرعمل رہا ہے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے:
’’وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِنْ بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ‘‘الآیۃ سورۃ حج:34
ترجمہ: ہم نےہر امت کےلئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ چوپائیوں کےمخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نےعطاء فرمائے۔
قربانی کاعمل اگرچہ ہرامت میں جاری رہا ہے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں خصوصی اہمیت اختیار کر گیا، اسی وجہ سے اسے ’’سنتِ ابراہیمی‘‘کہاگیاہے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محض خدا کی رضامندی کے لیے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کیلئے پیش کیا تھا۔ اسی عمل کی یاد میں ہر سال مسلمان قربانیاں کرتے ہیں۔
اس قربانی سے ایک اطاعت شعار مسلمان کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ رب کی فرمانبرداری اور اطاعت میں ہرقسم کی قربانی کے لئے تیار رہے اورمال ومتاع کی محبت کو چھوڑ کرخالص اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا کرے۔نیز قربانی کرتے وقت یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ قربانی کی طرح دیگر تمام عبادات میں مقصود رضاء الٰہی رہے،غیر کےلیے عبادت کاشائبہ تک دل میں نہ رہے۔ گویا مسلمان کی زندگی اس آیت کی عملی تفسیر بن جا ئے.
’’اِنَّ صَلاَ تِی وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَا تِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔‘‘سورۃ انعا م:162
تر جمہ: میری نماز، میری قربانی، میرا جینا ،میرامرنا،سب اللہ کی رضا مندی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کاپالنے والا ہے۔
قربانی کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس پر ہمیشگی فرمائی ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔
’’اَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ عَشَرَسِنِیْنَ یُضَحِّیْ‘‘ (جامع الترمذی:ج 1، ص:409: ابواب الاضاحی)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا(اس قیام کے دوران) آپ قربانی کرتے رہے۔
قربانی کے فضائل:
کئی احادیث میں قربانی کے فضائل وارد ہیں، چند یہ ہیں:
(1):عَنْ زَیْدِ ابْنِ اَرْقَمَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا ھٰذِہِ الاَضَاحِیُّ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلاَم قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنَ الصُّوْفِ حَسَنَۃٌ۔(سنن ابن ماجہ ص 226 باب ثواب الاضحی)
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا:یارسول اللہ!یہ قربانی کیا ہے؟(یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت (اور طریقہ) ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نےعرض کیا کہ ہمیں اس قربانی کے کرنے میں کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کےبدلے میں ایک نیکی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (پھر سوال کیا) یا رسول اللہ!اون (کے بدلے میں کیا ملے گا) فرمایا:اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔
(2) ’’عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللّٰہ عنہا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَاعَمِلَ آدَمِیٌ مِنْ عَمَلٍ یَوْ مَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ اَنَّہْ لَیَتَأ تِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِھَا وَاَظْلاَفِھَا وَاِنَّ الدَّمَّ یَقَعُ مِنَ اللّٰہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ مِنَ الْاَرْضِ فَطِیْبُوْا بِھَا نَفْساً‘‘ (جا مع تر مذی ج1ص275 با ب ما جاء فی فضل الاضحیہ)
ترجمہ: عید الاضحیٰ کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نز دیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں،سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کےہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے، لہذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔
(3) ’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اُنْفِقَتِ الْوَرَقُ فِیْ شَئْیٍ اَفْضَلُ مِنْ نَحِیْرَۃٍ فِیْ یَوْ مِ الْعِیْدِ۔‘‘(سنن الدارقطنی ص774باب الذبا ئح ،سنن الکبریٰ للبیہقی ج9 ص 261)
تر جمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:کسی خرچ کی فضیلت اللہ تعا لیٰ کے نزدیک بہ نسبت اس خرچ کے جو بقرہ عید والے دن قربانی پر کیا جا ئے ہرگز نہیں۔