آج حج کا سب سے بڑا رکن یعنی ‘‘ وقوف عرفہ ’’ ادا کرنا ہے جس کے بغیر حج نہیں ہو تا ، طلوع آفتاب کےٍ بعد جب کچھ دھوپ پھیل جائے منی سے عرفات کیلئے روانہ ہو جائے جو منی سے تقریبا چھ میل ہے ، جب جبل رحمت پر نظر پڑے ( میدان عرفات میں ایک پہاڑ ہے ) تو تسبیح و تہلیل و تکبیر کہے اور جو چاہے دعا مانگے ، خواہ یہ دعا مانگ لے :اللهم إليك توجهت و عليك توكلت و وجهك أردت اللهم اغفرلي و تب علي واعطني سؤلي و وجه لي الخير حيث توجهت , سبحان الله و الحمد لله و لا إله إلا الله و الله أكبر.
ترجمہ : اے اللہ ! میں نے آپ ہی کی طرف توجہ کی اور آپ ہی پر بھروسہ کیا ، اور آپ ہی کی رضا کا ارادہ کیا ، اے اللہ ! میری مغفرت فرما اور میری تو بہ قبول فرما اور میرا سوال پورا فرما، اور خیر کو میرے لئے ادھر متوجہ فرما دے ۔ جدھر میری توجہ ہو، میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہو ں اور سب تعریف اللہ کے لئے ہے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے ۔
نویں ذی الحجہ کو زوال کے بعد سے صبح صادق تک کے درمیانی حصہ میں احرام حج کی حالت میں کسی قدر بھی عرفات میں ٹھہر جا ئے یا وہاں سے گزر جا ئے تو اس کا حج ہو جا ئے گا اگر اس وقت میں ذرا دیر کو بھی عرفات میں نہ پہونچا تو حج نہ ہوگا اور زوال کو بعد غروب آفتاب تک عرفات میں ٹھہرنا واجب ہے جو شخص اس وقت میں نہ پہنچ سکے وہ آنے والی رات میں کسی وقت بھی پہنچ جائے تو اس کا حج ہو جائے گا ۔
مستحب یہ ہے کہ زوال آفتاب کے بعد غسل کرلے ، اور اس کا موقع نہ ملے تو وضو ہی کر لے اور اول وقت نمازادا کر کے وقوف شروع کر دے ۔
سنت طریقہ یہ ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی امیر حج کی اقتداء میں پڑھی جائے یعنی عصر کو بھی ظہر کے وقت میں ہی پڑھ لے ، وہاں جو بڑی مسجد ہے جس کو مسجد نمرہ کہتے ہیں اس میں امام دونوں نمازیں اکٹھی پڑھا تا ہے ، لیکن چونکہ ہر شخص وہاں پہنچ نہیں سکتا اور سب حاجی اس میں سما بھی نہیں سکتے اوربغیر امیر حج کی اقتداء کے دونوں نمازوں کو عرفات میں جمع کرنا حدیث شریف سے ثابت بھی نہیں ہے ، اور امام کے مقیم یا مسافر ہو نے کا یقینی طور پر علم بھی نہیں ہو تا ، اس لئے ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان وغیرہ کے حنفی علماء کرام حاجیوں کو یہی فتوی دیتے ہیں کہ اپنے اپنے خیموں میں نماز پڑھنے والے ظہر کی نماز ظہر کے وقت میں اور عصر کی نماز عصر کے وقت میں باجماعت پڑھیں اور نمازوں کے علاوہ جو وقت ہے اسے ذکر اور دعاء اور تلبیہ میں صرف کریں ۔ اجتہادی مسائل میں شدت پسندی جائز نہیں ۔ آپ اپنے مذہب کے مطابق عمل کریں دو سروں پر اعتراض نہ کریں