صدقۂ فطر کا بیان
1. صدقۂ فطر اس شخص پر واجب ہے جو آزاد اور مسلمان ہو اور ایسے نصاب کا مالک ہو جو اس کی اصلی حاجتوں سے زائد ہو خواہ وہ مال نصاب بڑھنے والا ہو یا نہ ہو زکوٰۃ اور صدقۂ فطر کے نصاب میں یہ فرق ہے کہ زکوٰۃ فرض ہونے کے لئے چاندی سونا یا تجارت کا مال ہونا ضروری ہے ،صدقۂ فطر کے نصاب میں ہر قسم کا مال حساب میں لیا جاتا ہے جو حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو اور قرض سے بچا ہوا ہو پس اگر کسی شخص کے پاسروزمرہ کے استعمالی کپڑوں اور برتنوں و دیگر سامان کے علاوہ اگر حاجاتِ اصلیہ سے زائد سامان ہو اور ان سب کی قیمت نصابِ زکوٰۃ کے برابر یا زیادہ ہو تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی مگر صدقۂ فطر واجب ہو گا 2. صدقۂ فطر واجب ہونے کی شرطیں یہ ہیں آزاد ہونا، غلام پر صدقۂ فطر واجب نہیں ہے مسلمان ہونا، کافر پر صدقۂ فطر واجب نہیں ہے صاحبِ نصاب ہونا، اور نصاب کا اس کی اور اس کے اہل و عیال کی اصلی حاجتوں سے زائد ہونا حوائج اصلیہ کی تفصیل زکوٰۃ کے بیان میں گزر چکی ہے ، اس نصاب کا بڑھے والا ہونا اور اس پر سال کا گزرنا شرط نہیں ہے ، جس کی تفصیل بھی زکوٰۃ میں مذکور ہے عاقل و بالغ ہونا امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف کے قول کے بموجب صدقۂ فطر واجب ہونے کی شرطوں میں سے نہیں ہے اس لئے اگر نابالغ اور مجنون کا مال ہو تو ان پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے اور ان کا ولی یعنی باپ یا اس کا وصی یا دادا یا اس کا وصی ان کے مال سے صدقۂ فطر نکالے اگر یہ لوگ نہ نکالیں تو نابالغ بالغ ہونے پر اور مجنون افاقہ ہونے کے بعد خود نکالے ، ان کے غلاموں کا فطرہ بھی ان دونوں کے مالوں میں سے ادا کرنا واجب ہے 3. صدقۂ فطر واجب ہونے کا سبب خود اس کی ذات اور وہ لوگ ہیں جن کا نان نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے اور وہ ان پر کامل ولایت رکھتا ہے پس صدقۂ فطر اپنی طرف سے ادا کرنا واجب ہے اگر کسی شخص نے کسی عذرسے یا بلا عذر روزے نہ رکھے ہوں تب بھی اس پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے اوراس کے نابالغ بچوں اور بچیوں کی طرف سے بھی اس پر واجب ہے لیکن اگر نابالغ بچہ خود مالدار ہو تو اس کے مال میں سے صدقۂ فطر واجب ہو گا کم عقل، دیوانہ اور مجنون کا بھی وہی حکم ہے جو نابالغ بچے کا ہے یعنی اس کی طرف سے باپ صدقۂ فطر ادا کرے
Top