زکوٰۃ ادا کرنے کا طریقہ
1. مالکِ مال کو اختیار ہے کہ ان ساتوں مصارف میں سے ہر قسم کے آدمی کو تھوڑا تھوڑا دے یا ایک ہی قسم کے مصرف کو سب زکوٰۃ دے دے اگرچہ دوسری اقسام کے لوگ بھی موجود ہیں ، اور اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ سب زکوٰۃ ایک ہی شخص کو دے دے 2. اور جس قدر زکوٰۃ دینی ہے اگر وہ بقدر نصاب نہیں ہے تو ایک شخص کو دینا افضل ہے اور ایک فقیر کو نصاب کی مقدار یا اس سے زیادہ دینا مکروہ ہے لیکن اگر دے دے گا تو جائز ہو گی اور یہ حکم اس وقت ہے جب کہ فقیر قرضدار نہ ہو اور اگر قرضدار ہو تو اس قدر دینا کہ قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد نصاب کی مقدار سے کم ہو تو بلا کراہت جائز ہے ، اسی طرح اگر اس کے اہل و عیال بہت ہوں تو اس کو اس قدر دینا(بلا کراہت) جائز ہے کہ اگر وہ سب اہل و عیال پر تقسیم کرے تو ایک قدر نصاب (دو سو درہم) سے کم پہنچے اور اگر فقیر کے پاس پہلے سے کچھ رقم ہو تو اتنا دینا مکروہ ہو گا جس سے مل کر وہ رقم نصاب کو پہنچ جائے 3. ایک فقیر کو اس قدر دینا مستحب ہے کہ اس روز اس کو سوال کی حاجت نہ ہو، اس میں اس کی اور اس کے اہل و عیال کی ضرورت کا اعتبار کیا جائے گا ضرورت سے مراد صرف خوراک نہیں ہے بلکہ کپڑا، تیل مکان کا کرایہ وغیرہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کا وہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے لئے اس روز محتاج ہے 4. زکوٰۃ کے مال کا ایک شہر سے دوسرے شہر بھیجنا مکروہِ تنزیہی ہے اور بعض کتابوں میں مکروہِ تحریمی لکھا ہے لیکن دس صورتوں میں دوسرے شہر کو بھیجنے میں کوئی کراہت نہیں ہے اور وہ یہ ہے : جبکہ دوسرے شہر میں زکوٰۃ دینے والے کوئی رشتہ دار ہوں یا دوسرے شہر کے لوگ اس شہر والوں سے زیادہ محتاج ہوں ، یا دوسرے شہر کا فقیر زیادہ پرہیزگار ہو، یا وہ زیادہ نیک ہوں ، یا وہ ایسا شخص ہو جس سے مسلمانوں کو زیادہ نفع پہنچ رہا ہو، یا طالب علم ہو، یا وہ شخص زاہد ہو، یا دار الحرب سے دار السالم کے فقرا کی طرف بھیجے ، یا مسلمان قیدیوں کے لئے دوسرے شہر میں بھیجے ، یا اگر وقت سے پہلے زکوٰۃ ادا کی جائے تو دوسرے شہروں کو بھیجنا خواہ بلاکسی وجہ کے ہو تب بھی مکروہ نہیں ہے 5. زکوٰۃ کے مصارف کو زکوٰۃ دیتے وقت افضل یہ ہے کہ اول اپنے بھائی بہنوں کو دے پھر ان کی اولادوں کو پھر چچاؤں اور پھوپھیوں کو پھر ان کی اولاد کو پھر ماموں اور خالاؤں کو پھر ان کی اولاد کو پھر ذوی الارحام کو پھرپڑوسیوں کو پھر اپنے ہم پیشہ لوگوں کو پھر اپنے شہر یا گاؤں والوں کو دے 6. زکوٰۃ ادا کرنے میں وہاں کے فقیر معتبر ہیں جہاں مال ہو، زکوٰۃ دینے والے کے مکان کا اعتبار نہیں ہو گا اور صدقۂ فطر ادا کرنے میں صدقۂ فطر دینے والے کے مکان کا اعتبار ہو گا اس پر فتویٰ ہے اور ان کے مکان کا اعتبار نہیں ہو گا جن کی طرف سے دے رہا ہے 7. زکوٰۃ کی ادائگی کے لئے یہ شرط ہے کہ زکوٰۃ دینا تملیک کے طور پر ہو اباحت کے طور پر نہ ہو یعنی اس کو پوری طرح مالک بنا دے کہ جس طرح چا ہے اس میں تصرف کرے اگر صرف اس چیز کو کام میں لانا مباح کر دیا تو یہ کافی نہیں ہے جیسا کہ اگر کسی یتیم کو کھانا مباح کر دیا تو اس کو صرف اس کے کھا لینے کا اختیار ہے اس کے سوا اور کچھ اختیار نہیں اور اگر اس کو کھانے کا مالک کر دیا تو اب اس کو اختیار ہے کہ خود کھائے یا دوسرے کو دے دے پسزکوٰۃ میں زکوٰۃ لینے والے کو اس کا مالک کر دینا شرط ہے اگر کسی فقیر کو اپنے گھر میں ایک سال تک رکھا اور اس میں زکوٰۃ ادا کرنے کی نیت کر لی تو زکوٰۃ ادانہ ہو گی اس لئے کہ اس کو نفع یعنی سکونت کا مالک کیا ہے جو کہ مال نہیں ہے اور مال(مکان) کا مالک نہیں کیا ہے اگر کسی فقیر کا قرضہ اپنے مال کی زکوٰۃ سے ادا کیا تو اگر اس کے حکم سے ادا کیا تو جائز ہے اور اگر بغیر حکم کے ادا کیا تو زکوٰۃ ادا نہ ہو گی اور قرض ساقط ہو جائے گا یہ زکوٰۃ دینے والی کی طرفسے نفلی صدقہ ہو گا اور بالغ و عاقل ہونا اس میں شرط نہیں ہے اس لئے کہنا بالغ بچہ کی تملیک صحیح ہے لیکن اگر وہ قبضہ کو نہیں سمجھتا تو اس کا وصی یا ماں باپ یا جو شخص اس کی کفالت کرتا ہو وہ اس کی طرف سے قبضہ کر لے 8. ہمارے زمانے میں جو ظالم حاکم صدقہ، عشر، خراج، محصول اور مصادرات(جرمانہ) وغیرہ لیتے ہیں اصح یہ ہے کہ یہ سب مال والوں کے ذمہ سے ساقط ہو جاتے ہیں بشرطیکہ وہ دیتے وقت ان کو صدقہ دینے کی نیت کر لیں ۹. اپنے غریب رشتہ داروں کے سمجھدار بچوں کو عید وغیرہ کی تقریب کے نامسے زکوٰۃ دینا جائز ہے اسی طرح خوشخبری لانے والے اور نیا پھل لانے والے کو زکوٰۃ کی رقم زکوٰۃ کی نیت سے دینا جائز ہے اگرچہ اس کو انعام کہہ کر دی جائے لیکن معاوضہ میں نہ دی جائے جیسا کہ نیت کے بیان میں گزر چکا ہے 10. ایک عورت کا مہر ہزار روپیہ ہے لیکن اس کا خاوند بہت غریب ہے کہ ادا نہیں کر سکتا تو ایسی عورت کو زکوٰۃ دینا درست ہے اور اگر اس کا شوہر امیر ہے لیکن مہر نہیں دیتا یا اس عورت نے مہر معاف کر دیا تب بھی اس کو زکوٰۃ دینا درست ہے اور اگر یہ امید ہے کہ جب وہ مانگے گی تو خاوند ادا کر دے گا، ایسی عورت کو زکوٰۃ دینا درست نہیں 8. ہمارے زمانے میں جو ظالم حاکم صدقہ، عشر، خراج، محصول اور مصادرات(جرمانہ) وغیرہ لیتے ہیں اصح یہ ہے کہ یہ سب مال والوں کے ذمہ سے ساقط ہو جاتے ہیں بشرطیکہ وہ دیتے وقت ان کو صدقہ دینے کی نیت کر لیں ۹. اپنے غریب رشتہ داروں کے سمجھدار بچوں کو عید وغیرہ کی تقریب کے نامسے زکوٰۃ دینا جائز ہے اسی طرح خوشخبری لانے والے اور نیا پھل لانے والے کو زکوٰۃ کی رقم زکوٰۃ کی نیت سے دینا جائز ہے اگرچہ اس کو انعام کہہ کر دی جائے لیکن معاوضہ میں نہ دی جائے جیسا کہ نیت کے بیان میں گزر چکا ہے 10. ایک عورت کا مہر ہزار روپیہ ہے لیکن اس کا خاوند بہت غریب ہے کہ ادا نہیں کر سکتا تو ایسی عورت کو زکوٰۃ دینا درست ہے اور اگر اس کا شوہر امیر ہے لیکن مہر نہیں دیتا یا اس عورت نے مہر معاف کر دیا تب بھی اس کو زکوٰۃ دینا درست ہے اور اگر یہ امید ہے کہ جب وہ مانگے گی تو خاوند ادا کر دے گا، ایسی عورت کو زکوٰۃ دینا درست نہیں 11. جب مال پر سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ واجب ہو گئی تو خواہ وہ ایک ہی دفعہ تمام زکوٰۃ ادا کر دے یا متفرق طور پر مختلف وقتوں میں دیتا ر ہے جائز ہے پس اگر زکوٰۃ کی رقم زکوٰۃ کی نیت سے علیحدہ کر کے رکھ لی اور اس کے بعد تھوڑا تھوڑا کر کے مختلف وقتوں میں نیت کئے بغیر دیتا رہا یا زکوٰۃ کی نیت سے الگ نکال کر نہیں رکھی بلکہ سال کے اندر فقراء کو تھوڑا تھوڑا دیتا رہا اور دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت سے دیا تو جائز ہے جیسا کہ نیت کے بیان میں مذکور ہو چکا ہے
Top