مصارف زکوٰۃ و عشر
مصارف مصرف کی جمع ہے ، شرع میں اس مسلمان کو کہتے ہیں جس کو زکوٰۃ دینا شریعت کے مطابق درست ہے جو مصارف زکوٰۃ کے ہیں وہی عشر، صدقہ فطر، کفارات، نذر اور دیگر صدقاتِ واجبہ کے بھی ہیں معدنیات اور دفینوں کے مصارف غنیمت کے مصارف کی مانند ہیں ، جن کی تفصیل کتب فقہ میں جہاد کے بیان میں ہے قرآن مجید میں زکوٰۃ کو آٹھ مصارف بیان ہوئے ہیں ان میں سے ایک مصرف المولفتہ قلوبھم (کفار کی تالیف کے لئے دینا) بہ اجماع صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین ساقط ہو چکا ہے اب سات مصارف باقی ہیں جن میں زکوٰۃ کا خرچ کرنا جائز ہے وہ یہ ہیں 1. فقیر 2. مسکین 3. عامل 4. رقاب (غلام) 5. غارم ( قرضدار) 6. فی سبیل اللّٰہ 7. ابن السبیل ( مسافر) ان سب کی مختصر وضاحت درج ذیل ہے :1. فقیر فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس تھوڑا سا مال ہو یعنی بڑھنے والا اور قرضہ سے بچا ہوا ہونے کو باوجود نصاب کی مقدار سے کم ہو یا بقدر نصاب ہو لیکن بڑھنے والا نہ ہو، فقیر عالم کو زکوٰۃ دینا فقیر جاہل کو دینے سے افضل ہے 2. مسکین مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو اور وہ اپنے کھانے کے لئے یا بدن ڈھاپنے کے لئے مانگنے کا محتاج ہو اور اس کے لئے سوال کرنا حلال ہو بخلاف فقیر کے کہ اس کو سوال کرنا حلال نہیں پس مسکین فقیر سے زیادہ تنگ حال ہوتا ہے 3. عامل عامل وہ شخص ہے جس کو بادشاہِ اسلام نے صدقات و عشر وصول کرنے کے لئے مقرر کیا ہو اور یہ لفظ ساعی (باطنی اموال کی زکوٰۃ وصول کرنے والا) اور عاشر(ظاہری اموال کی زکوٰۃ وصول کرنے والا) دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اگر کوئی شخص اپنے مال کی زکوٰۃ خود جا کر امام (بادشاہ) کو(یعنی اس کے مقررہ دفتر میں ) دے دے تو اس میں عامل کا کچھ حق نہیں ہے ، عامل کو اوسط درجہ کا خرچ دیا جائے عامل کو کھانے پینے اور لباس وغیرہ میں اپنی خواہشاتِ نفسانی کی پیروی کرنا جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے اور امام کو لازم ہے کہ ایسے آدمی کو بھیجے جو اوسط خرچی پر راضی ہو عامل اگرچہ غنی ہو اس کے لئے زکوٰۃ و صدقات میں سے خرچ لینا جائز ہے ، اگر عامل کے پاسمال ہلاک ہو جائے یا ضائع ہو جائے تو عامل کا حق ساقط ہو جائے گا اس کو نہیں ملے گا اور زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی، عامل گر ہاشمی ہو تو اس کو زکوٰۃ وغیرہ صدقاتِ واجبہ میں سے لینا حلال نہیں ہے یعنی مکروہِ تحریمی ہے ، اگر اس کو دوسری جائز مد سے روزینہ دیا جائے اور وہ بلا اجرت تبرّعاً یہ کام کرے تو ہاشمی کو عامل مقرر کرنا جائز و درست ہے ، اگر صدقہ وصول کرنے والا شخص اپنے کام کا حق واجب ہونے سے پہلے لے لے تو جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ پہلے نہ لے 4. رقاب(غلام) رقاب سے مراد مکاتب غلام ہے ، ان کو آزاد کرانے میں زکوٰۃ دے کر ان کی مدد کی جائے ، خواہ مکاتب کا مالک فقیر ہو یا غنی ہو یہی صحیح ہے ، ہاشمی کے مکاتب غلام کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ، مکاتب کو جو زکوٰۃ کی رق مدی جائے گی بعض کے نزدیک وہ اسی اپنے آزاد کرانے میں ہی صرف کرنے ہو گی اس کے علاوہ اور جگہ اس کا صرف کرنا جائز نہیں لیکن صحیح یہ ہے کہاس کو جائز ہے کہ جس چیز میں چا ہے خرچ کرے 5. غارم (قرضدار) غارم کے معنی قرضدار کے ہیں ، جس کے ذمہ کسی کا قرض ہو اور اس کے پاس ادا کرنے کے لئے کچھ نہ ہو اگر ایسا شخص غیر ہاشمی ہو تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اگر کسی کے پاس ہزار روپے نقد موجود ہوں اور وہ ہزار روپے یا اس سے زائد کا مقروض بھی ہے تو اس کو زکوٰۃ دینا درست ہے جس شخص کا قرضہ لوگوں کے اوپر ہے اور وہ اس کو وصول کرنے پر ادر نہیں ہے اور اس کے پاس اور کچھ بقدرِ نصاب نہیں ہے تویہ شخص غارم نہیں بلکہ غریم (قرض خواہ) فقیر ہے اگرچہ اس کو بھی زکوٰۃ دینا درست ہے لیکن فقیر ہونے کی حیثیت سے قرضدار کی حیثیت سے نہیں 6. فی سبیل اللّٰہ ی سبیل اللّٰہ کا مطلب ہے اس شخص کو دینا جو اللّٰہ کے راستہ میں جہاد کر رہا ہو، امام ابویوسف کے نزدیک فی سبیل اللّٰہ سے مراد وہ غازی لوگ ہیں جو فقیری کی وجہ سے لشکر اسلام کے غازیوں سے جدا ہیں یعنی جو اپنے فقیر ہونے کی وجہ سے خرچہ یا سواری وغیرہ نہ ہونے کے باعث لشکرِ اسلام کے ساتھ ملنے سے عاجز رہ گئے ہوں ان کو زکوٰۃ لینا حلال ہے اگرچہ وہ سب کسب کر سکتے ہوں کیونکہ اگر وہ کسب میں مشغول ہوں گے تو جہاد سے رہ جائیں گے ، یہی صحیح و اظہر ہے بعض نے فی سبیل اللّٰہ سے طالب علم اور سفر حج میں قافلہ سے بچھڑا ہوا حاجی وغیرہ مراد لیا ہے جبکہ وہ خرچ نہ ہونے کی وجہ سے قافلہ میں نہ مل سکے اگرچہ فقیر و محتاج ہونے کی وجہ سے وہ بھی مصرف ہیں اور اس میں شامل ہو سکتے ہیں ، طالب علموں اور دیندار مستحق عالموں کو دینا بڑا ثواب ہے 7. ابن السبیل (مسافر) ابن السبیل سے مراد مسافر ہے یعنی وہ مسافر جو دور ہونے کی وجہ سے اپنی مال سے جدا ہو اور اس کے پاس خرچ ختم ہو گیا ہو یا اس کا مال چوری ہو گیا ہے یا کوئی اور وجہ ایسی ہو گئی کہ گھر تک پہنچنے کا خرچ نہیں ہے یا مثلاً حاجی کا خرچ ختم ہو گیا ہے اگرچہ وہ اپنے وطن میں مالدار ہے پس اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اگر چہ اس کے گھر والے مال میں اسپر زکوٰۃ واجب ہے اور اپنے وطن پہنچ کر اس کو اُس مال کی زکوٰۃ دینے کا حکم ہے فقیر مسافر کو اپنی ضرورت کے مطابق یعنی جتنا اس کا گمان غالب میں بقدر حاجت ہو لینا جائز ہے ضرورت سے زیادہ لینا حلال نہیں ، لیکن جو شخص اپنے وطن میں بھی فقیر ہے اس کو ضرورت سے زیادہ لینا درست ہے جو شخص اپنے شہر میں اپنے مال سے جدا ہو وہ بھی ابن السبیل کے حکم میں ہے مسافر کو زکوٰۃ لینے سے قرضہ لینا اولیٰ ہے
Top