1. کان (معدن) اور دفینہ میں خمس لیا جائے گا
2. کان سے جو چیزیں نکلتی ہیں تین قسم کی ہیں : اول جو آگ میں پگھل جاتی ہیں ،دوم مائعات یعنی بہنے والی چیزیں ، سوم جو نہ پگھلتی ہیں اور نہ بہنے والی ہیں پہلی قسم کی چیزوں میں خُمس یعنی پانچوں حصہ واجب ہے اور وہ چیزیں یہ ہیں : سونا، چاندی، لوہا، رانگ، تانبا اور کانسی وغیرہ پارہ میں بھی خُم سواجب ہے یہی صحیح ہے دوسری اور تیسری قسم کی چیزوں میں خمس واجب نہیں ہے ، بہنے والی چیزوں کی مثال پانی اور تیل وغیرہ ہیں اور وہ چیزیں جو نہ پگھلتی ہیں نہ بہتی ہیں ان کی مثال چونا، گچ، جواہرات مثلاً یاقوت، زمرد، فیروزہ،موتی، سرمہ اور پھٹکڑی وغیرہ ہیں پس ان دونوں قسموں میں کوئی خمس نہیں لیا جائے گا
3. کان یا دفینہ عشری زمین میں نکلے یا خراجی زمین میں ہر حال میں اس میں خمس واجب ہو گا
4. اگر کسی کے گھر یا اس کی دکان میں کان نکل آئی تو خمس واجب ہونے میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس میں خمس واجب نہیں ہے اور صاحبین کے نزدیک خمس واجب ہے اور باقی چار حصہ بالاتفاق مالک مکان کا ہو گا مملوکہ زمین کی کان میں امام ابوحنیفہ سے دو روایتیں ہیں کتاب الاصل کی روایت میں مملوکہ زمین اور گھر میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی امام صاحب کے نزدیک ان میں کچھ واجب نہیں ہے سب مالک کا ہے اور دوسری روایت میں جو جامع الصغیر کی ہے اس کے مطابق دونوں میں فرق ہے یعنی گھر (مکان و دکان ) میں کچھ لازم نہیں ہے اور مملوکہ زمین میں خمس واجب ہے بعض کے نزدیک اصل کی روایت کو ترجیع ہے اور بعض کے نزدیک جامع الصغیر کی روایت کو ترجیع ہے اورقیاسبھی اسی کا مقتضی ہے
5. جاہلیت کے دفینے میں خمس لیا جائے گا دفینہ خواہ کسی قسم کا ہو، خواہ وہ زمین کی جنس سے ہو لیکن قیمت والا ہو ہر حال میں خمس لیا جائے گا پسمادنیات کی تینوں قسموں میں سے جو چیز بھی زمین میں مدفون پائی جائے اگر وہ زمانہ جاہلیت کا یعنی غیر مسلموں کا دفینہ ہے تو اس میں خمس واجب ہے کیونکہ وہ بمنزلہ غنیمت کے ہے جو کہ کفار کے قبضہ میں تھی پھر ہمارے قبضے میں آ گئی اور دفینہ نقدی و غیر نقدی مثلاً ہتھیار، آلات، گھر کا سامان،نگینے اور کپڑے وغیرہ سب کو شامل ہے اہل اسلام کے دفینوں میں خمس نہیں ہے ان کا حکم لقتہ کا ہے جس کا حکم یہ ہے کہ مسجد کے دروازوں پر اور بازاروں میں اتنے دن تک اعلان کیا جائے کہ گمان غالب ہو جائے کہ اب اس کا مالک نہیں ملے گا پھر اگر خود فقیر ہے تو اپنے صرف میں لائے ورنہ کسیدوسرے فقیر کو دے دے لیکن جب بھی اس کا مالک تلاش کرتا ہوا آئے تو یہ اس کو ضمان دے گا دفینہ علامات سے معلوم کیا جائے گا کہ اہل اسلام کا ہے یا غیرمسلموں کا ہے پس اگر اس میں اہل اسلام کا سکہ ہے مثلاً اس پر کلمہ شہادت ہے یا کوئی اور ایسا نقش ہے جو مسلمانوں کی نشانی ہے تو وہ لقطہ ہے اور اگر اس میں جاہلیت کے سکے ہیں مثلاً درہموں پر صلیب یا بت کی تصویر بنی ہوئی ہے یا ان کے مشہور بادشاہوں کا نام وغیرہ منقوش ہے تو وہ مدن (کان)کے حکم میں ہے اور اس میں خمس ہے ، اگر کوئی علامت نہ ہو اور شبہ پڑ جائے تو اس میں اختلاف ہے ظاہر مذہب کے بموجب وہ جاہلیت کے زمانے کاہی سمجھا جائے گا کفار کے درہم مسلمانوں کے درہموں میں مخلوط ہونے کی صورت میں جیسا کہ ہمارے زمانے میں رواج ہے بلاخلاف اسلامی ہی ہونے چاہئیں کان یا دفینہ کا پانے والا خواہ بالغ ہو یا نابالغ عورت ہو یا مرد آزاد ہو یا غلام مسلمان ہو یا ذمی سب اس حکم میں برابر ہیں
6. اگر دفینہ مملوکہ زمین میں ملے تو سب فقہ کا اتفاق ہے کہ اس میں پانچوں حصہ دینا واجب ہے اور چار حصے جو باقی ر ہے ان میں اختلاف ہے امام ابویوسف کے نزدیک باقی سب پانے والے کے لئے ہے جیسا کہ غیر مملوکہ زمین کے دفینہ کا حکم ہے اور اسی پر فتوی ہے
7. کان اور دفینہ اگر دار الحرب میں ملے تو اس میں خمس نہیں لیا جائے گا بلکہ وہ کل پانے والے کا ہو گا اگر دار الحرب میں مسلمانوں کی ایک شوکت و طاقت والی جماعت داخل ہو اور ان کا کچھ خزانہ یا مدن ان کو دستیاب ہو جائے تو اس میں خمس واجب ہو گا کیونکہ وہ غنیمت ہے اس لئے کہ وہ غلبہ اور قہر سے حاصل ہوا ہے
8. دفینہ اور کان پانے والے کے لئے جائز ہے کہ خمس اپنی ذات پر اور اپنی اصل یعنی ماں باپ پر یا فرع یعنی اولاد پر اور اجنبی پر صرف کرے بشرطیکہ یہ محتاج ہوں یعنی اس کو اموال باطنہ کی زکوٰۃ کی طرح اس خمس کو فقرا پر خرچ کر دینے کا اختیار حاصل ہے پھر اگر وہ بادشاہ کو اطلاع دے تو بادشاہ کو چاہئے کہ اس کے کئے ہوئے کو قبول کر لے