عاشر کا بیان
1. عاشر اُس کو کہتے ہیں جسے بادشاہِ اسلام نے راستہ پر اِس لئے مقرر کیا ہو کہ جو تاجر لوگ مال لے کر گزریں ان سے صدقات وصول کرے اور وہ اس لئے مقرر کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس کے عوض میں تاجروں کو چوروں اور ڈاکوؤں سے بچائے اور امن دے پس اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان کی حفاظت پر قادر ہو اس لئے بادشاہ ان سے جو مال لیتا ہے وہ ان اموال کی حفاظت کے لئے لیتا ہے 2. عاشر کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ آزاد، مسلمان اور غیر ہاشمی ہو پسعاشر کا غلام اور کافر ہونا درست نہیں ہے ، اور ہاشمی کے لئے اگر بادشاہ بیتِ المال سے کچھ مقرر کر دے یا ہاشمی تبرع کے طور پر اس خدمت کو انجام دے اور اس کا معاوضہ عشر و زکوٰۃ سے نہ لے تو اس کو مقرر کرنا جائز ہے 3. مال دو قسم کا ہوتا ہے اول ظاہر اور وہ مویشی ہیں اور وہ مال ہے جسکو تاجر لے کر عاشر کے پاس سے گزرے دوم اموالِ باطن ہیں وہ سونا چاندی اور تجارت کا وہ مال ہے جو آبادی میں اپنی جگہوں میں ہو عاشر اموال ظاہر کا صدقہ لیتا اور ان اموالِ باطن کا صدقہ بھی لیتا ہے جو تاجر کو ساتھ ہوں 4. صدقہ وصول کرنے کی ولایت کے لئے کچھ شرطیں ہیں اول یہ کہ بادشاہِاسلام کی طرف سے چوروں اور ڈاکوؤں سے حفاظت پائی جائے ، دوم یہ کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو، سوم مال کا ظاہر ہونا اور مالک کا موجود ہونا پس اگر مالک موجود ہے اور مال گھر میں ہے تو عاشر اس سے زکوٰۃ نہیں لے گا5. شرع میں عاشر کا مقرر کرنا جائز و درست ہے حدیث شریف میں جو عاشر کی مذمت آئی ہے وہ اس عاشر کے متعلق ہے جو لوگوں کے مال ظلم سے لیتا ہے 6. اگر کوئی شخص یہ ک ہے کہ اس کے مال کو سال پورا نہیں ہوا، یا یہ ک ہے کہ اس کے ذمہ قرضہ ہے یا یہ ک ہے کہ میں نے زکوٰۃ دے دی ہے ، یا یہ ک ہے کہ میں نے دوسرے عاشر کو دے دی ہے اور جس کو وہ دینا بتاتا ہے وہ واقعی عاشر ہے ، اگر وہ ان تمام صورتوں میں اپنے بیان پر حلف اٹھائے تو اس کا قول مان لیا جائے گا اور اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ دوسرے عاشر کی رسیددکھائے ، اگر سائمہ جانوروں کے متعلق بیان کرے کہ ان کی زکوٰۃ اس نے اپنے شہر کے فقیروں کو دے دی ہے تو اس کا قول نہیں مانا جائے گا بلکہ اس سے دوبارہ وصول کی جائے گی خواہ بادشاہِ اسلام کو اس کی ادائگی کا علم بھی ہو کیونکہ یہ اموالِ ظاہرہ میں سے ہے جس کی زکوٰۃ لینے کا حق بادشاہ ہی کو ہے اس کو خود تقسیم کر دینے کا اختیار نہیں ہے اگر صاحبِ مال یہ ک ہے کہ یہ مالِ تجارت کا نہیں ہو تو اس کا قول مان جائے گا 7. جن امور میں مسلمانوں کا قول مانا جاتا ہے ذمی کافر کا قول بھی مانا جائے گا کیونکہ اس کے مال میں بھی وہ تمام شرطیں پائی جانی ضروری ہیں جو زکوٰۃ میں ہیں اور اس سے زکوٰۃ کا ہی دو چند لیا جاتا ہے لیکن ذمی کافر اگر یہ ک ہے کہ میں نے فقرا کو دے دیا ہے تو اس کا قول نہیں مانا جائے گا اس لئے کہ اہل ذمہ کے فقرا اس کا مصرف نہیں ہیں اور مسلمانوں میں صرف کرنے کا اس کو اختیار نہیں ہے 8. کافر حربی کا قول کسی بات میں نہیں مانا جائے گا اور اس سے عشر لیا جائے گا لیکن اگر وہ باندیوں کو اُم ولد اور غلاموں کو اپنی اولاد بتائے تو اس کا قول مانا جائے گا کیونکہ نسب جس طرح دار الاسلام میں ثابت ہوتا ہے دار الحرب میں بھی ثابت ہوتا ہے اور بیٹے کی ماں ہونا نسب کے تابع ہے اس صورت میں باندی اور غلام مال نہ رہیں گے ۹. عاشر مسلمانوں سے مال کا چالیسواں حصہ لے گا اور ذمی کافروں سے مسلمانوں کی نسبت دوگنا یعنی بیسواں حصہ لے گا اور حربی کافروں سے دسواں حصہ لے گا بشرطیکہ ان تینوں میں سے ہر ایک کا مال بقدر نصاب ہو اور کافر بھی مسلمانوں سے خراج لیتے ہیں ذمی و حربی کافروں سے جو کچھ لیا جائے گا وہ جزیہ کے مصارف میں صرف کیا جائے گا، اگر حربی کافر ہمارے تاجروں سے کم و بیش لیتے ہوں تو ان سے بھی اس قدر لیا جائے اور اگر وہ کچھ نہ لیتے ہوں تو ہم بھی کچھ نہ لیں گے ، اگر مسلمانوں کا سارا مال لیتے ہوں تو ان کا بھی سارامال لیا جائے گا لیکن اس قدر چھوڑ دیا جائے گا کہ جس سے وہ اپنے ملک میں واپس پہنچ جائیں ، اور اگر وہ ان کا لینا یا نہ لینا معلوم نہ ہو تو ان سے عشر مذکورہ یعنی دسواں حصہ ہی لیا جائے گا 10. اگر کوئی شخص باغیوں کے عاشر کے پاس سے گزرا اور اس نے عشر لے لیا پھر وہ شخص بادشاہ کے عاشر کے پاس سے گزرا تو اس سے دوبارہ عشر لیا جائے گا کیونکہ باغیوں کے عاشر کے پاس جانا اس کا قصور ہے لیکن بادشاہ کے باغی لوگ کسی شہر پر غالب ہو جائیں اور وہاں کے لوگوں سے چرنے والے جانوروں کی زکوٰۃ لیں لیں یا مال والا شخص اُن کے پاس سے گزرنے پر مجبور ہو اور وہ اس سے عشر وصول کر لیں تو اب اس شخص یا ان لوگوں پر کچھ واجب نہیں ہو گا کیونکہ بادشاہ نے ان کی حفاظت نہیں کی اور بادشاہ جو مال لیتا ہے ان کی حفاظت کی وجہ سے لیتا ہے پس قصور اُس کا ہے نہ کہ مال والوں کا اہل حرب کے غالب آنے کی صورت میں بھی یہی حکم ہے جو باغیوں کا بیان ہوا ہے 11. امانت کے مال میں سے عشر نہیں لیا جائے گا اور اسی طرح مالِ مضاربت میں بھی عشر نہیں لیا جائے گا، ماذون غلام کی کمائی میں بھی یہی حکم ہے کہ عشر نہیں لیا جائے گا لیکن ماذون غلام کا آقا اس کے ساتھ ہو تو اس سے عشر لیا جائے گا 12. اگر کوئی شخص عاشر کے پاس سے ایسی چیز لے کر گزرا جو بہت جلد خراب ہو جاتی ہے مثلاً سبزیاں ، دودھ، کھجوریں ، تازہ پھل وغیرہ تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس سے عشر نہیں لیں گے اور صاحبین کے نزدیک عشر لیں گے ، لیکن اگر عامل کے ساتھ فقراء ہوں یا اپنے عملہ کے لئے لے لیا تو امام صاحب کے نزدیک یہ بھی جائز ہے اور اگر مالک عشر میں قیمت دے دے تو بھی بالاتفاق لے لینا جائز ہے
Top