مال تجارت کی زکوٰۃ کا بیان
1. تجارتی مال خواہ کسی قسم کا ہو جب اس کی قیمت سونے چاندی کے نصاب کے برابر ہو گی اس میں زکوٰۃ واجب ہو جائے گی اور نقدی (سونا،چاندی اور اس کا سامان زیور برتن وغیرہ اور اس کے سکہ وغیرہ) کے علاوہ جو سامان تجارت کے لئے ہو وہ مال تجارت ہے تجارت کا مال وہ ہے جو تجارت ہی کے ارادہ سے خریدا گیا ہو لیکن اگر کسی نے گھر پر خرچ کے لئے یا شادی وغیرہ کے لئے مثلاً چاول خریدے پھر ارادہ ہو گیا کہ اس کو فروخت کر لیں تو وہ تجارت کا مال نہیں ہے اس لئے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے 2. مال تجارت کی قیمت مروجہ سکوں سے لگائی جائے گی ان کے علاوہ کسیدوسری چیز سے نہیں لگائی جائے گی 3. جب مالِ تجارت کی قیمت شروع سال میں ایسے دو سو درہموں کی برابر ہو جن میں چاندی غالب ہو تو اس کی زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے نصاب کی قیمت کاحساب سال پورا ہونے کے وقت لگایا جائے گا 4. تجارتی مال میں اختیار ہے خواہ سونے کے سکے سے قیمت لگائی جائے یا چاندی کے سکہ سے لیکن اگر ان میں سے کسی ایک سے نصاب پورا ہو جاتا ہو اور دوسرے سے پورا نہ ہوتا ہو تو جس سے نصاب پورا ہوتا ہو اس سے ہی قیمت لگانا متعین و ضروری ہو جائے گا، اور یہ اس وقت ہے جبکہ دونوں سکے برابر چلتے ہوں ورنہ جو زیادہ رائج ہو گا اسی سے قیمت لگانا مقرر و متعین ہو جائے گا 5. جس شہر میں مال موجود ہو اس شہر کے نرخ کے بموجب قیمت لگائی جائے گی اور اگر مال جنگل میں ہو تو اس شہر کی قیمت کا حساب لگایا جائے جو وہاں سے زیادہ قریب ہو یہی اولیٰ ہے 6. اگر زکوٰۃ قیمت کے حساب سے دے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک وجوب کے دن کی قیمت کا اعتبار ہے اور صاحبین کے نزدیک ادائگی کے دن کی قیمت کا اعتبار ہو گا، جیسا کہ چرنے والے جانوروں میں ہے لیکن اگر جنس کی ذات میں قیمت کی زیادتی ہو گئی مثلاً گندم کی رطوبت خشک ہو گئی جس کی وجہ سے اس کی قیمت بڑھ گئی تو بالاجماع قیمت کا اعتبار اُسی زمانہ سے کیا جائے گا جب زکوٰۃ واجب ہوئی ہے اور اگر ان کی ذات میں نقصان ہو گیا مثلاً گیہوں بھیگ گئے تو بالاجماع زکوٰۃ ادا کرتے وقت جو قیمت ہے اس کا اعتبار ہو گا7. اگر تجارت کے مال مختلف جنس کے ہوں تو بعض کو بعض میں قیمت کے ساتھ ملائیں گے 8. موتیوں میں اور یاقوت وغیرہ جواہرات میں زکوٰۃ نہیں ہے لیکن اگر یہ تجارت کے لئے ہوں تو ان میں بھی زکوٰۃ واجب ہو گی اور نصابِ مشترک میں بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہے خواہ سائمہ ہو یا مالِ تجارت ہو نصابِ مشترک سے مراد یہ ہے کہ الگ الگ ہر شخص کا مال زکوٰۃ کے لائق نہ ہو لیکن جب دونوں کا مال ملا لیں تو نصاب پورا ہو جاتا ہو ۹. اگر کسی شخص نے کانسی پیتل کی دیگچیاں خریدیں اور وہ ان کو کرایہ پر چلاتا ہے تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی جیسا کہ ان کے گھروں پر زکوٰۃ نہیں ہے جن کو وہ کرایہ پر چلاتا ہے اسی طرح اگر کسی نے غلہ بھرنے کے لئے باردانہ (بوری گونیں وغیرہ) اس لئے خریدیں کہ ان کو کرایہ پر چلائے گا تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی کیونکہ یہ تجارت کے لئے نہیں ہیں 10. اگر کسی کی زمین میں سے گیہوں حاصل ہوئے جن کی قیمت بقدرِ نصاب ہو اور اس نے یہ نیت کی کہ ان کو روکے گا یا بیچے گا پھر ان کو ایک سال تک روکا تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی 11. اگر جانوروں کا سوداگر خرید و فروخت کے جانوروں کے گلے میں ڈالنے کے لئے گھونگھرو یا باگ ڈوریں یا منھ پر ڈالنے کے برقعے و جھول وغیرہ خریدے تو اگر یہ چیز اُن جانوروں کے ساتھ بیچنے کی ہیں تو ان میں زکوٰۃ واجب ہو گی اور اگر جانوروں کی حفاظت کے لئے ہیں تو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی، اسیطرح عطّار شیشیاں خریدے تو اس کا بھی یہی حکم ہے 12. تجارت کے مال کی زکوٰۃ خواہ اس کی قیمت لگا کر چالیسواں حصہ ادا کر دی جائے یا اسی مال میں سے چالیسواں حصہ مالِ زکوٰۃ دے دیا جائے یا کسیدوسری جنس سے اس کی قیمت کی برابر مال دے دیا جائے تینوں طرح جائز ہیں
Top