1. سونے کا نصاب بیس مثقال ہے اور چاندی کا نصاب دو سو درہم ہے اس سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے اور جب زکوٰۃ کے مال پر پورا سال گزر جائے تو اس کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں دینا فرض ہے پس ہر بیس مثقال سونے میں پوار سالگزرنے پر چالیسواں حصہ یعنی نصف مثقال سونا واجب ہوتا ہے اور ہر دو سودرہم میں پانچ درہم واجب ہوتا ہے اور ہر سو روپے میں اڑھائی روپے اور ہرچالیس روپے میں ایک روپیہ واجب ہوتا ہے بیس مثقال تولہ کے حساب سے ساڑھے سات تولہ ہوتا ہے پس ہمارے ملک میں سونے کا یہی نصاب ہے اور دوسو درہم کے ساڑھے باون تولہ ہوتے ہیں پس یہ چاندی کا نصاب ہے
سونا چاندی خواہ سکہ دار ہو یعنی روپے اشرفیاں وغیرہ ہوں یا بے سکہ ہو اور خواہ زیور ہو یا برتن وغیرہ اور چیز ہو مثلاً تلوار کا زیور یا پٹا یا لگام یا زین یا قرآن شریف میں سونے کو تار یا ستارے وغیرہ لگے ہوئے ہوں یا سچا گوٹہ ٹھپہ وغیرہ ہو خواہ یہ چیزیں استعمال میں آتی ہوں یا نہ آتی ہوں یا نہ آتی ہوں اور خواہ اس کا استعمال مباح ( جائز) ہو جیسے عورتوں کے لئے زیور اور خواہ مباح نہ ہو جیسے مرد کے لئے سونے کی انگوٹھی اور خواہ اس سے تجارت کرے یا نہ کرے غرض کہ سونے چاندی اور اس کے سامان اور اس کے سکوں وغیرہ میں ہر حال میں زکوٰۃ واجب ہے اگر کسی کے پاس اتنے روپے یا نوٹ موجود ہوں جن کی بازار کے بھاؤ کے مطابق ساڑھے باون تولے چاندی آ سکے اور ان پر سال گزر چکا ہو اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی
2. جب صرف سونا یا صرف چاندی ہو تو ادا اور وجوب دونوں کے لحاظ سے وزن کا اعتبار ہے قیمت کا اعتبار نہیں ہے ادا کے لحاظ سے وزن کا اعتبار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ زکوٰۃ میں دیا جائے اگر وہ اُسی جنس سے دیا جائے تو وزن میں زکوٰۃ واجب کی مقدار کے برابر ہو مثلاً 100 روپیہ پھر چاندی کے زیور کی قیمت فروخت پچاس روپے ہے تو اس قیمت کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا بلکہ اس کی زکوٰۃ چاندی کے وزن کے موافق سو روپیہ بھر چاندی کے زیور میں اڑھائی روپیہ بھر ( ڈھائی تولہ) چاندی دینی چاہئے خواہ زیور وغیرہ سے دے یا چاندی کی ڈلی دے یا چاندی کا روپیہ اگر رائج ہو وہ دے یا اڑھائی تولہ چاندی کی قیمت بازار کے نرخ سے دے یا مثلاً اگر چاندی کا لوٹہ وغیرہ کوئی برتن ہو جس کا وزن دو سو درہم ہو اور بنوائی کی اجرت لگا کر اس کی قیمت تینسو درہم ہے تو اگر اس کی زکوٰۃ چاندی میں دے تو اس کی زکوٰۃ پانچ درہم ہو گی لیکن اگر زکوٰۃ میں اس سے دوسری جنس دے تو بالاجماع قیمت کا اعتبار ہو گا مثلاً اگر بناوٹ کے اعتبار سے اس چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے تو بناوٹ کی قیمتسمیت جو کل قیمت ہو گی اس کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ واجب ہو گی
مثال مذکورہ بالا میں چاندی کے برتن کی قیمت بناوٹ کے اعتبار سے تین سو درہم ہے تو غیر جنس کی زکوٰۃ ادا کرنے میں اس کی عمدگی و بناوٹ کی قیمت لگائی جائے گی اور اس کی زکوٰۃ ساڑھے سات درہم کا سونا وغیرہ دوسری جنس دینی چاہئے اگر صرف پانچ درہم دئے ہوں گے تو وہ قدر مستحق سے واقع ہو جائیں اور باقی اڑھائی درہم کا سونا وغیرہ اور دینا ہو گا وجوب کے حق میں وزن کا اعتبار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ وزن کے اعتبار سے نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے تو زکوٰۃ واجب ہو گی ورنہ نہیں اور بالاجماع اس میں قیمت اور تعداد کا اعتبار نہیں ہو گا مثلاً اگر کسی کے پاس سونے یا چاندی کا برتن ہو جس کا وزن دس مثقال یا سو درہم کے برابر ہو اور اس کی قیمت بناوٹ کے اعتبار سے پیس مثقال یا دو سو درہم ہے یا چاندی کے کسی برتن کا وزن ڈیڑھ سو درہم ہو اور اس کی قیمت دو سو درہم ہے تو ان میں کچھ زکوٰۃ واجب نہیں ہے اسی طرح اگر گنتی میں دو سو درہم پورے ہوں اور وزن میں کم ہوں تو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں اگرچہ وہ کمی تھوڑی ہی ہو
3. اگر سونا اور چاندی میں کھوٹ ملا ہوا ہو تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر چاندی میں کھوٹ ملا ہوا ہو اور چاندی غالب ہو تو وہ چاندی کے حکم میں ہے اور سونے میں کھوٹ ملا ہوا ہو اور سونا غالب ہو تو سونے کے حکم میں ہے اور اگر ان دونوں میں ملا ہوا کھوٹ غالب ہو تو یہ دونوں اسباب تجارت کی مانند ہیں پس اگر ان میں تجارت کی نیت کی ہو تو قیمت کے لحاظ سے زکوٰۃ واجب ہو گی اور اگر تجارت کی نیت نہ کی ہو تو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی درہموں اور روپیوں میں کھوٹ ملا ہوا ہو تو اگر چاندی غالب ہے تو وہ خالص درہموں اور روپیوں یعنی چاندی کے حکم میں ہیں ، اور اگر کھوٹ اور چاندی برابر برابر ہوں تب بھی مختار یہ ہے کہ زکوٰۃ واجب ہو گی اور اگر کھوٹ غالب ہو تو وہ چاندی کے حکم میں نہیں ہے پس اگر وہ سکہ رائج الوقت ہیں یا سکہ تو اب نہیں ر ہے لیکن ان میں تجارت کی نیت کی ہو تو ان کی قیمت کے اعتبار سے زکوٰۃ دی جائے گی، اور اگر ان درہموں کا رواج نہیں رہا ہو تو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں لیکن اگر بہت ہوں اور ملاوٹ سے چاندی الگ ہو سکتی ہو اور ان میں اتنی چاندی ہو کہ دو سو درہم کی مقدار ہو جائے یا کسی دوسرے مال، چاندی سونا یا اسبابتجارت کے ساتھ مل کر نصاب ہو جائے تب بھی زکوٰۃ واجب ہو گی، اور اگر چاندی اس سے جدا نہ ہو سکتی ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے کھوٹے درہموں میں جو اس وقت سکہ رائج ہوں ہر حال میں زکوٰۃ واجب ہو گی خواہ ان میں چاندی مغلوب ہی ہو اور الگ نہ ہو سکتی ہو اور خواہ ان میں تجارت کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو کیونکہ ان میں نیت تجارت کا ہونا شرط نہیں ہے ملاوٹ کے سونے کا بھی وہی حکم ہے جو ملاوٹ کی چاندی کا بیان ہوا ہے ، اور اگر سونا اور چاندی آپس میں ملے ہوئے ہوں تو اگر چاندی مغلوب ہو اور سونا غالب ہو خواہ وزن کے اعتبار سے غالب ہو یا قیمت کے اعتبار سے تو وہ سونے کے حکم میں ہے اور اگر چاندی غالب ہو لیکن سونا اپنے نصاب کو پہنچ جائے تب بھی وہ کل سونے کے حکم میں ہے اور اس کل میں سونے کی زکوٰۃ واجب ہو گی اور اگر سونا نصاب کو نہ پہنچے لیکن چاندی نصاب کو پہنچ جائے تو کل میں چاندی کی زکوٰۃ واجب ہو گی، اور یہ حکم اس وقت ہے جبکہ مخلوط سونا قیمت میں چاندیسے کم ہو ورنہ کل میں سونے کی زکوٰۃ واجب ہو گی جاننا چاہئے کہ سونا اور چاندی کے مخلوط ہونے کی بارہ صورتیں مرتب ہوئیں یعنی سونا غالب ہو اورسونا اور چاندی بقدرِ نصاب ہوں ، یا سونا غالب ہو اور فقط سونا بقدر نصاب ہو،یا چاندی غالب ہو اور ہر ایک بقدرِ نصاب ہو، یا چاندی غالب ہو اور فقط سونابقدرِ نصاب ہو یا دونوں برابر ہوں اور ہر ایک بقدرِ نصاب ہو، یا دونوں برابر ہوں اور فقط سونا بقدرِ نصاب ہو ( ان چھ صورتوں میں حکم سونے کا ہو گا اورسونے ہی کی زکوٰۃ واجب ہو گی) یا چاندی غالب ہو اور فقط چاندی بقدرِ نصاب ہو(ان صورت میں حکم چاندی کا ہو گا اور چاندی کی زکوٰۃ واجب ہو گی)، یا سوناغالب ہو اور دونوں میں سے کوئی بقدرِ نصاب نہ ہو، یا چاندی غالب ہو اور دونوں میں سے کوئی بقدرِ نصاب نہ ہو، یا دونوں برابر ہوں اور بقدرِ نصاب نصاب نہ ہو ( ان صورتوں میں زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی یا سونا غالب ہو اور فقط چاندی بقدرِ نصاب ہو یا دونوں برابر ہوں اور فقط چاندی بقدرِ نصاب ہو( یہ دونوں صورتیں ناممکن ہیں کیونکہ سونا بہت قیمتی چیز ہے ) ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سونا یا چاندی سے الگ الگ نصاب پورا نہیں ہوتا لیکن دونوں کو ملا کر نصاب پورا ہو جاتا ہے تو اس کا حکم جیسا کہ آگے آتا ہے یہ ہے کہ سونے کی زکوٰۃ واجب ہو گی
4. امام صاحب کے نزدیک نصاب سے اوپر جو زیادتی ہو جب تک وہ نصاب کا پانچواں حصہ نہ ہو جائے معاف ہے اس میں کچھ زکوٰۃ نہیں پس چاندی میں نصاب سے اوپر انتالیس درہم تک نہ ہو جائیں معاف ہے اور جب زیادتی چالیسدرہم ہو جائے تو ایک درہم اس کی زکوٰۃ میں دینا واجب ہے ، اسی طرح ہر چالیسدرہم میں ایک درہم زکوٰۃ واجب اور انتالیس تک معاف ہے سونے میں چار مثقال اور ہر چار مثقال کی زیادتی ہو جائے تو دو قیراط اس کی زکوٰۃ کے واجب ہوں گے اور ہر چار مثقال کی زیادتی پر دو قیراط زکوٰۃ واجب ہوتی جائے گی، اگر سونے کے نصاب کی زیادتی اور چاندی کے نصاب کی زیادتی الگ الگ پانچوں حصہ سے کم ہو اور ملا کر پانچواں حصہ ہو جائے تو دونوں کو ملائیں گے صاحبین کے نزدیک نصاب پر زیادتی خواہ کم ہو یا زیادہ کل رقم پر زکوٰۃ واجب ہے اور کل رقم کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں ادا کیا جائے گا صاحبین کے قول میں احتیاط زیادہ ہے اور فتویٰ کے لئے یہی مختار ہے جیسا کہ فتاویٰ دیوبند وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے
5. تجارت کے مال کی قیمت سونے چاندی کی قیمت کے ساتھ ملا کر زکوٰۃ دی جائے گی اسی طرح سونے اور چاندی کو آپس میں قیمت کے ساتھ ملا کر زکوٰۃ ادا کریں گے پس اگر کسی کے پاس کچھ چاندی کچھ سونا اور کچھ تجارت کا مال ہے اگر سب کو ملا کر ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت کے برابر ہو جائے تو زکوٰۃ واجب ہو گی ورنہ نہیں اور ایک نقدی کا دوسرینقدی کے ساتھ قیمت کے ساتھ ملایا جانا امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے اور اقل کو اکثر کے ساتھ یا اکثر کو اقل کے ساتھ ملانے میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی دونوں صورتوں میں سے جس صورت میں بھی نصاب پورا ہو جائے گا زکوٰۃ واجب ہو جائے گی، اور صاحبین کے نزدیک اجزا کے اعتبار سے ملایا جائے گا اور یہ چاندی کو سونے میں یا سونے کو چاندی میں ملانا اس وقت واجب ہے جبکہ دونوں جنسیں موجود ہوں اور دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بقدرِ نصاب نہ ہو، پس اگر صرف ایک جنس موجود ہے مثلاً صرف سونا یا چاندی ہے تو قیمت کا اعتبار نہیں بلکہ وجوب اور ادا دونوں کے لئے وزن کا اعتبار ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا اسی طرح اگر دونوں میں سے ایک کا نصاب پورا ہو تو ملانا واجب نہیں ہے بلکہ ان میں سے ہر ایک کی زکوٰۃ علیحدہ علیحدہ دینا جائز ہے اور اگر ملا کر کسی ایک سے زکوٰۃ ادا کر دے تو کوئی حرج نہیں لیکن اس کے لئے واجب ہے کہ دونوں میں سے اس کے ساتھ قیمت لگائی جائے جس میں فقرا کو زیادہ فائدہ ہو وضاحت:کے لئے مندرجہ ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں
اگر کسی کے پاس سونا اور چاندی میں سے ہر ایک نصاب سے کم ہے اگر ان دونوں کی قیمت ملا کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے یاساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت کے برابر ہو جائے تو زکوٰۃ واجب ہو گی ورنہ نہیں ، اگر کسی کے پاس دو تولہ سونا اور پانچ روپے نقد سال بھر تک ر ہے اور اس زمانہ میں سونے کا بھاؤ پچاس روپے تولہ ہے اور چاندی ایک روپے کی ڈیڑھ تولہ ملتی ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے کیونکہ دو تولہ سونا پچاس روپے کا ہوا اور پچاس روپے کی چاندی پچھتر تولہ ہوئی پس دو تولہ سونے کی چاندی پچھتر تولے ملے گی اور پانچ روپے پہلے سے پاس ہیں اس لئے یہ رقم سے زائد ہو کر زکوٰۃ فرض ہو جائے گی
اگر کسی کے پاس تیس تولہ چاندی ہے اور ایک روپے کی دو تولہ چاندی ملتی ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی کیونکہ جب صرف چاندی یا صرف سونا پاس ہو تو وزن کا اعتبار ہے قیمت کا اعتبار نہیں ہے