جنگل میں چرنے والی بکریوں اور بھیڑوں کا نصاب چالیس ہے چالیس سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور جب چالیس ہو جائیں اور ان پر سال پورا ہو جائے تو ایک بکری یا بھیڑ واجب ہو گی ایک سو بیس تک یہی حکم ہے صرف ایک بکری یا بھیڑ واجب ہو گی اور زائد کچھ واجب نہیں ہو گا جب ایک سو اکیس ہو جائیں تو دو بکریاں یادو بھیڑیں واجب ہوں گی دو سو تک یہی حکم ہے اور جب دو سو ایک ہو جائیں تو تین بکریاں یا بھیڑیں واجب ہوں گی پھر تین سے ننانوے تک یہی حکم ہے اور جب چار سو پوری ہو جائیں تو چار بکریاں یا بھیڑیں واجب ہوں گی اس کے بعد ہرسیکڑے پر ایک بکری یا بھیڑ واجب ہو گی خواہ کتنی ہی ہو جائیں یہی حسابر ہے گا اور سو سے نیچے کی زیادتی میں کچھ واجب نہیں ہو گا اور جو چیزیں زکوٰۃ میں مجتمع ہیں ان کو جدا جدا نہیں کریں گے اور جو جدا جدا ہیں ان کو جمع نہیں کریں گے مثلاً اگر کسی شخص کے پاس اسّی بکریاں ہیں تو ان کا حساب جدا جدا نصاب بنا کر اس طرح نہیں کریں گے کہ اگر یہ دو آدمیوں کے پاس چالیس چالیس ہوتیں تو دو بکریاں واجب ہوتیں پس ایک آدمی پر دو بکریاں واجب کر دی جائیں ایسا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ جب مالک ایک ہے تو چالیس سے ایک سوبیس تک ایک ہی نصاب ر ہے گا اور ایک ہی بکری واجب ہو گی اور اگر انہی بکریوں کے دو شخص نصف نصف حصہ کے مالک ہوں تو اس صورت میں دونوں کو جمع کر کے ایک نصاب نہیں بنائیں گے اور یہ نہیں کہیں گے کہ اگر ایک شخص کے پاس اسّی بکریاں ہوتی تو ایک بکری واجب ہوتی لہذا ان دونوں سے بھی ایک بکری لے لی جائے کیونکہ یہ درست نہیں ہے بلکہ دونوں کے الگ الگ نصاب پر ایک ایک بکری واجب ہو گی اسی طرح اگر کسی ایک شخص کی ملکیت میں ایک سوبیس بکریاں ہیں تو صدقہ وصول کرنے والا اس سے ایک ہی بکری وصول کرے گا جدا جدا نصاب کر کے ہر چالیس پر ایک بکری کے حساب سے تین بکریاں لینا جائز نہیں ہے اس کے برخلاف اگر ایک سو بیس بکریوں کے تین برابر کے مالک ہوں توہر ایک کے حصہ کی ایک ایک بکری کے حساب سے تین بکریاں وصول کرے گا ایک بکری سب کی جگہ لینا درست نہیں ہے اور اگر چالیس بکریاں دو آدمیوں میں برابر برابر مشترک ہوں تو کسی پر زکوٰۃ نہیں ہو گی کیونکہ ہر ایک کا حصہ نصاب سے کم ہے اونٹوں اور گائے بیلوں میں بھی یہی حکم ہے چرانے والی بکریوں میں کم سے کم عمر جس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور جس کا زکوٰۃ میں لیا جانا جائز ہے یہ ہے کہ ایک سال پورا ہو کر دوسرا سال شروع ہو چکا ہو ایک سال سے کم کا بچہ زکوٰۃ میں نہیں لیا جائے گا، یہی حکم بھیڑوں دنبوں سبکے لئے ہے اس پر فتویٰ ہے اور نر و مادہ کی قید نہیں ہے نصاب پورا کرنے کے لئے بکریاں (نر و مادہ) اور بھیڑ و دنبہ ( نر و مادہ ) ان سب کا ایک ہی حکم ہے کہ ایک کو دوسرے میں ملا کر نصاب کو پورا کریں گے اور مجموعہ پر زکوٰۃ لی جائے گی مثلاً کسی کے پاس چالیس بکریاں اور چالیس بھیڑیں ہیں تو اس کے دو نصاب نہیں کہیں گے اور دو جانور واجب نہیں ہوں گے بلکہ ان کے مجموعہ یعنی اسی پر ایک بھیڑ یا بکری واجب ہو گی لیکن اگر بکری دے گا تو ادنیٰ درجہ کی جائز ہے اور بھیڑ دے گا تو اعلیٰ درجہ کی دے گا زکوٰۃ میں دینے کے لئے اگر صرف بکریاں ( نر و مادہ ) ہیں تو بکریوں سے زکوٰۃ لی جائے گی،بھیڑ یا دنبہ نہیں لیا جائے گا اور بھیڑیں اور دنبہ ( نر و مادہ) ہیں تو انہی میں سے زکوٰۃ لی جائے گی بکری نہیں لی جائے گی اور اگر مخلوط ہوں جو زیادہ ہے زکوٰۃ میں بھی وہی لی جائیں گی اور اگر برابر ہوں تو اختیار ہے چا ہے جس میں سے ادا کر دے لیکن اعلیٰ قسم میں سے ادنیٰ قیمت کا اور ادنیٰ قسم میں سے اعلیٰ قیمت کا دے جیسا کہ گائے کی زکوٰۃ میں بیان ہوا ہے