1. زکوٰۃ ادا کرنے کی شرط یہ ہے کہ زکوٰۃ دیتے وقت متصل ہی زکوٰۃ دینے کی نیت کرے یا زکوٰۃ کی رقم اپنے مال سے علیحدہ کرنے کے وقت زکوٰۃ میں دینے کی نیت سے الگ کرے اور یہ نیت کافی ہے خواہ زکوٰۃ کی کل رقم علیحدہ کرتے وقت نیت کرے یا اس کا بعض حصہ نکالتے وقت نیت کرے کیونکہ مستحقین کو متفرق وقتوں میں دینا ہوتا ہے اور ہر وقت نیت کے حاضر ہونے میں دقت ہے اس لئے زکوٰۃ کی رقم یا سامان علیحدہ کرتے وقت کی نیت کو شرع نے کافی قرار دیا ہے
2. اگر اپنے مال میں سے زکوٰۃ کی نیت سے مالِ زکوٰۃ علیحدہ نہیں کیا اور یہ نیت کر لی کہ آخر سال تک جو کچھ دوں گا وہ زکوٰۃ ہے تو یہ جائز نہیں پس اس صورت میں وقتاً فوقتاً جو کچھ وہ فقیروں کو دیتا رہا اگر اس نے ہر دفعہ اس کے دینے کے وقت زکوٰۃ کی نیت کر لی تھی تو جائز و درست ہے اور بغیر نیت کے دیتا رہا تو زکوٰۃ ادا نہ ہو گی البتہ وہ صدقہ و خیرات ہو گا اس کا ثواب الگ ملے گا
3. اگر کسی فقیر کو زکوٰۃ کی نیت کے بغیر زکوٰۃ کا مال دے دیا تو جب تک وہ مال فقیر کے پاس موجود ہے اس نے اس کو خرچ نہیں کیا تو خواہ کتنے ہی دن ہو جائیں اس میں زکوٰۃ کی نیت کر لینے سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی اور یہ نیت کا حکماً متصل ہونا ہے اور اگر فقیر نے اس مال کو خرچ کر لیا ہے اس کے بعد زکوٰۃ دینے والے نے زکوٰۃ کی نیت کی تو اب وہ زکوٰۃ ادا نہ ہو گی پھر سے ادا کرے
4. وکیل کو زکوٰۃ کی رقم دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت کر لینا بھی کافی ہے کیونکہ زکوٰۃ دینے والے کی نیت کا اعتبار ہے اور اگر اس نے وکیل کو دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت نہ کی اور جب وکیل نے فقراء کو دیا اس وقت مالک نے نیت کر لی تب بھی جائز ہے ( بلکہ جب تک فقیر کے پاس وہ مال بجنسہ موجود ہے تب تک بھی نیت کر لینے سے ادا ہو جائے گی)
5. اگر کسی شخص نے سال پورا ہونے پر تمام مالِ نصاب خیرات کر دیا اور اس میں نہ زکوٰۃ کی نیت کی اور نہ کسی اور واجب مثلاً نذر وغیرہ کی نیت کی بلکہ نفل صدقہ کی نیت کی ہو یا بالکل کوئی نیت نہ کی ہو تو کل مال خیرات کرنے سے اس سے زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی اور اگر نذر وغیرہ کسی دوسرے واجب کی نیت سے دیا تو وہ اُس ہی سے ادا ہو گا اور بقدرِ واجب زکوٰۃ اس کے ذمہ باقی ر ہے گی، اور اگر کل مال خیرات نہیں کیا بلکہ اس کا کچھ حصہ خیرات کیا تو امام ابو حنیفہ و امام محمد کے نزدیک خیرات کئے ہوئے حصہ کی زکوٰۃ اس سے ساقط ہو جائے گی یہی ارجح ہے
6. اگر کسی فقیر پر قرض تھا اور قرض خواہ نے وہ قرضہ اس فقیر کو معاف کر دیا تو یہ معاف کر دینا صحیح ہے اور اتنے حصہ کی زکوٰۃ اس سے ساقط ہو جائے گی خواہ اس معاف کرنے میں اس نے زکوٰۃ کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو اور اگر تھوڑا سا قرض معاف کیا تو صرف اس قدر حصہ کی زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی باقی حصہ کی زکوٰۃ ساقط نہیں ہو گی اگرچہ اس نے اس معاف کر دینے میں باقی کی زکوٰۃ دینے کی نیت کی ہو
7. اگر غنی مقروض کو سال پورا ہونے کے بعد وہ قرضہ ہبہ کر دیا یا قرضہ معاف کر دیا تو ہبہ یا معاف کئے ہوئے کی زکوٰۃ کی مقدار کا ضامن ہو گا یہی اصح ہے کیونکہ غنی کو ہبہ یا معاف کرنا مال کو ہلاک کرنا سمجھا جائے گا اور زکوٰۃ کے مال کو ہلاک کر دینے سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہوتی
8. اور اگر کسی فقیر کو یہ حکم دیا کہ دوسرے شخص پر جو میرا قرض ہے وہ وصول کر لے اور اس میں اس مال کی زکوٰۃ دینے کی نیت کی جو اس کے پاس موجود ہے تو جائز ہو اور فقیر کے قبضہ کر لینے کے بعد وہ زکوٰۃ ادا ہو جائے گی اس لئے کہ فقیر عین پر قبضہ کرتا تو یہ عین کو زکوٰۃ عین سے ہوئی
۹. اگر فقیر کو اپنا قرضہ ہبہ کر دیا اور اس سے اپنے دوسرے قرض کی زکوٰۃ کی نیت کی جو کسی دوسرے شخص پر ہے یا اس مال کی زکوٰۃ کی نیت کی جو اس کے پاس ہے تو جائز نہیں ، مثلاً کسی شخص کے کسی فقیر پر دس روپے قرض ہیں اور اس کے دوسرے مال کی زکوٰۃ بھی دس روپے یا زیادہ ہے اُس نے اس فقیر کو اپنا قرضہ دس روپیہ زکوٰۃ کی نیت سے معاف کر دیا تو زکوٰۃ ادا نہ ہو گی، البتہ اس کی ترکیب یہ ہے کہ اس کو اپنے پاس سے دس روپے زکوٰۃ کی نیت سے دے دے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی اب یہی روپیہ اپنی قرض میں اس سے لے لینا درست ہے اور اصل ان مسائل میں یہ ہے کہ عین اور دین کی زکوٰۃ عین سے دینا جائز ہے اور عین کی زکوٰۃ اور ایسے قرض کی زکوٰۃ جو عنقریب وصول ہو جائے گا دین سے ادا کرنا یعنی دین اس میں مَجرا کر دینا جائز نہیں مال عین وہ مال ہے جو اس کے مِلک میں قائم ہو خواہ نقد ہو یا اسباب (یعنی جس میں ملکیت اور قبضہ دونوں پائے جائیں ) دَین سے مراد وہ مال ہے جو دوسرے کے ذمہ ثابت ہو ( یعنی صرف ملکیت پائی جائے )
10. زکوٰۃ کو اعلان و اظہار سے دینا افضل ہے بخلاف نفلی صدقہ کے کہ اس کا چھپا کر دینا افضل ہے
11. اگر کسی شخص نے مثلاً پانچ درہم فقیر کو دیے اور اس میں زکوٰۃ اور نفلی صدقہ دونوں کی اکٹھی نیت کی تو امام ابو یوسف کے نزدیک زکوٰۃ سے واقع ہوں گے اور امام محمد کے نزدیک نفلی صدقہ سے ہوں گے
12. اصح قول کے بموجب زکوٰۃ لینے والے کو اس بات کا علم ہونا شرط نہیں ہے کہ یہ زکوٰۃ ہے بلکہ صرف دینے والے کی نیت زکوٰۃ کی ہونا کافی ہے پس اگر کسی شخص نے کسی مسکین کو کچھ رقم یا کوئی چیز یا قرض یا ہبہ کہہ کر دیے اور اپنے دل میں زکوٰۃ کی نیت کی تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی یہی اصح ہے اسی طرح اگر زکوٰۃ کی رقم اپنی غریب رشتہ داروں کے سمجھدار بچوں کو عید وغیرہ کے موقع پر عیدی کے نام سے دے دی اس میں زکوٰۃ دینے کی نیت کر لی یا کسی خوشخبری لانے والے یا نیا پھل لانے والے کو زکوٰۃ کی نیت سے دے دی اور اس میں اس کا بدلہ دینے کی نیت نہیں کی تو جائز و درست ہے بعض محتاج ضرورت مند ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کو زکوٰۃ کا روپیہ کہہ کر دیا جائے گا تو نہیں لیں گے اس لئے ان کو زکوٰۃ کا نہ کہیں بلکہ بچوں کی مٹھائی عیدی ہدیہ وغیرہ کہہ کر دے دیا جائے
13. زکوٰۃ کا اپنی مال عین سے ادا کرنا بھی شرط نہیں ہے پس اگر کسیدوسرے آدمی کو کہہ دیا کہ وہ اس کی زکوٰۃ ادا کر دے تو اس کے اپنے پاسسے ادا کرنے سے ادا ہو جائے گی اب وہ شخص اس اجازت دینے والے سے یہ رقم وصول کر لے لیکن اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کی زکوٰۃ اس کے حکم کے بغیر ادا کر دی پھر اس کو اطلاع مل گئی اور اس نے اس کو تسلیم و منظور بھی کر لیا تب بھی یہ زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی اگر کسی نے کسی دوسرے شخص کو دو روپے زکوٰۃ میں دینے کے لئے دیے لیکن اس نے بعینہ وہ دو روپے فقیر کو نہیں دیے بلکہ اپنے پاس سے دو روپے اس کی طرف سے دے دیے اور یہ خیال کیا کہ اپنے ان دو روپوں کے بدلہ میں اس کے وہ دو روپے لے لے گا تب بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی اب وہ اپنے دو روپے کے بدلہ میں اس کے دو روپے لے لے لیکن اگر اس کے د یے ہوئے روپے دوسرے شخص نے پہلے خرچ کر دیے اس کے بعد اپنے پاس سے دو روپے اس کی زکوٰۃ میں فقیر کو دئے تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی اسی طرح اگر اپنے پاس دو روپے دیتے وقت یہ نیت نہیں کی کہ وہ دو روپے لے لے گا جو اس کے پاس اس شخص کے رکھے ہیں تب بھی زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی اب وہ دونوں روپے پھر سے زکوٰۃ میں دے
14. کسی شخص کے ذمہ زکوٰۃ بھی ہے اور قرضہ بھی ہے اور اس کے پاس صرف اتنا مال ہے کہ دونوں میں سے ایک کے لئے پورا ہوتا ہے تو پہلے قرض خواہ کو قرضہ ادا کرے پھر جب توفیق ہو جائے تو اللّٰہ کریم کا حق ادا کریں زکوٰۃ ادا کرنے کا وقت
1. جب زکوٰۃ کے مال پر سال پورا ہو جائے تو زکوٰۃ فوراً ادا کرنا واجب ہے اگر بغیر عذر تاخیر کرے گا تو گناہگار ہو گا وہ شخص فاسق ہو گا اور اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی بظاہر تھوڑی تاخیر مثلاً ایک یا دو دن کی تاخیر سے بھی گناہگار ہو گا بعض کے نزدیک فوراً سے مراد یہ ہے کہ آنے والے سال تک تاخیر نہ کی جائے
2. نصاب کا مالک ہونے کے بعد وقت سے پہلے زکوٰۃ دے دینا جائز ہے نصاب( دو سو درہم) کا مالک ہونے سے پہلے زکوٰۃ پیشگی دینا جائز نہیں ، پس وقت سے پہلے زکوٰۃ دینا تین شرطوں سے جائز ہے اول یہ کہ پیشگی زکوٰۃ دیتے وقت صاحبِ نصاب ہو دوم یہ کہ جس نصاب کی زکوٰۃ پیشگی دے دی وہ نصاب سالپورا ہونے پر بھی کامل ر ہے سوم یہ کہ اس درمیان میں نصاب منقطع یعنی بالکل ختم نہ ہو جائے
3. اگر صاحبِ نصاب ایک سال سے زیادہ کی زکوٰۃ پیشگی دے دے تو جائز ہے اس کی مثال یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس تین سو درہم ہیں اس نے ان میں سے دو سو درہم کی زکوٰۃ بیس سال کے لئے سو درہم دے دے تو یہ جائز ہے
4. جس طرح ایک نصاب کا مالک ہونے کے بعد وقت سے پہلے زکوٰۃ دینا جائز ہے اسی طرح بہت سے نصابوں کی زکوٰۃ بھی وقت سے پہلے دینا جائز ہے لیکن ان سب نصابوں کا جنس واحد سے ہونا ضروری ہے ورنہ جائز نہیں مثلاً کسیکے پاس تین سو درہم ہیں اس نے ان میں سے سو درہم زکوٰۃ میں اس تفصیل سے دیدے کہ موجودہ نصاب دو سو درہم کی زکوٰۃ میں پانچ درہم اور غیر موجود درہموں یا سونے یا چاندی یا مال تجارت کے انیس نصابوں کی زکوٰۃ میں جن کے حاصل ہونے کی اس کو اسی سال میں امید ہے پچانوے درہم دیے پھر اگر وہانیس نصاب اس کو اسی سال میں حاصل ہو گئے تو یہ زکوٰۃ صحیح ہو گی اور اگر وہ غیر موجودہ نصاب اسی سال میں حاصل نہ ہوئے بلکہ آئندہ سال حاصل ہوئے تو اب یہ ان کی زکوٰۃ میں شمار نہ ہو گی بلکہ ان کی زکوٰۃ علیحدہ دینا ضروری ہے اور وہ سو درہم پیشگی زکوٰۃ موجودہ نصاب یعنی دو سو درہم کیبیس سال کے لئے ہو جائے گی جیسا کہ مثال 3 میں ہے اسی طرح اگر کسی کے پاس سو درہم ضرورت سے زیادہ رکھے ہوئے ہیں اور سو درہم کہیں اور سے ملنے کی امید ہے اس نے دو سو درہم کی زکوٰۃ سال پورا ہونے سے پہلے پیشگی دے دی تو یہ درست ہے لیکن اگر سال ختم ہونے پر روپیہ نصاب سے کم ہو گیا تو زکوٰۃ معاف ہو گی اور وہ دی ہوئی زکوٰۃ نفلی صدقہ ہو گی
5. اگر کسی کے پاس دو نصاب ہیں ایک سونے کا اور دوسرا چاندی کا اور اسنے ان میں سے ایک کی زکوٰۃ وقت سے پہلے دے دی تو وہ دونوں سے ادا ہو گی کیونکہ یہ دونوں ایک ہی جنس ہیں اور اگر ان میں سے ایک نصاب ہلاک ہو گیا تواس صورت میں دوسرا نصاب متعین ہو جائے گا اور وہ اسی کی زکوٰۃ ہو گی
6. اگر وقت سے پہلے کسی فقیر کو زکوٰۃ دے دی اور سال پورا ہونے سے پہلے وہ فقیر مالدار ہو گیا یا مر گیا یا مرتد ہو گیا تو وہ زکوٰۃ ادا ہو گی اس لئے کہ زکوٰۃ دیتے وقت اس کا صحیح مصرف میں ہونا ضروری ہے آگے پیچھے کا کوئی اعتبار نہیں
7. اگر کسی شخص کے پاس مال نصاب تھا اس نے زکوٰۃ نہیں دی یہاں تک کہ وہ بیمار ہو گیا تو اب وارثوں سے پوشیدہ زکوٰۃ دے اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو اگر اس کو یہ گمان غالب ہے کہ قرض لے کر زکوٰۃ ادا کر دے گا اور پھر اس قرض کے ادا کرنے میں کوشش کرے گا اور ادا کر سکے گا ایسے آدمی کے لئے افضل یہ ہے کہ قرض لے کر ادا کرے پھر اگر قرض ادا کرنے پر قادر نہ ہوا یہاں تک کہ مر گیا تو امید ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ آخرت میں اس کا قرض ادا فرمائے گا اور اگر ادا کر سکنے کا گمان غالب نہ ہو تو افضل یہ ہے کہ قرض نہ لے اس لئے کہ صاحب قرض کی دشمنی بہت ہی سخت ہے