اقسام قرض
اگر کسی پر تمہارا قرض آتا ہے تو اس قرض پر بھی زکوٰۃ واجب ہے لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک قرض کی تین قس میں ہیں 1. قوی 2. متوسط 3. ضعیف جن کے احکام یہ ہیں قوی یہ ہے کہ نقد روپیہ یا اشرفی یا سونا یا چاندی کسی کو قرض دیا یا تجارت کا سامان بیچا تھا اور اس کی قیمت باقی ہے اس کا حکم یہ ہے کہ وصول ہونے پر گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ واجب ہو گی بشرطیکہ قرض تنہا یا اور مال کے ساتھ جو پہلے سے اس کے پاس ہے مل کر نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے اور اگر یکمشت وصول نہ ہو تو جب اس میں سے نصاب کا پانچواں حصہ یعنی چالیس درہم وصول ہو جائے گا اس وقت ہر سال کا ایک درہم زکوٰۃ میں ادا کرنا واجب ہو گا اس سے پہلے نہیں اور اسی طرح باقی رقم میں سے ہر چالیس درہم کے وصول ہونے پر اس کی زکوٰۃ واجب ہوتی جائے گیا اور گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی واجب ہو گی اگر چالیس درہم سے کم پر قبضہ ہو تو اس پر زکوٰۃ کی ادائگی واجب نہیں ہو گی اور اگر اس کے پاس پہلے سے اور رقم بقدر نصاب ہے تو وصول شدہ رقم خواہ چالیس درہم سے کم ہی ہو اس رقم میں ملا کر پہلی رقم کا سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو جائے گی، اب موجودہ سال کا حساب وصول شدہ رقم کے سال سے نہیں ہو گا البتہ گزشتہ سالوں کا حساب قرضہ کے وقت سے ہو گا متوسط یہ ہے کہ قرضہ نقد نہیں دیا اور نہ ہی تجارت کا سامان بیچا بلکہ خانگی سامان بیچا اور اس کی قیمت وصول نہیں ہوئی پھر چند سال کے بعد وصول ہوئی تو اس قسم کے قرض کی بھی گزشتہ سب سالوں کی زکوٰۃ قرض وصول ہونے پر ادا کرنی واجب ہو گی اور اگر سارا ایک دفعہ میں وصول نہ ہو بلکہ تھوڑا تھوڑا وصول ہو تو جب تک بقدر نصاب (دو سو درہم) وصول نہ ہو جائے زکوٰۃ ادا کرنی واجب نہیں ، جب کم از کم نصاب کی مقدار یا اس سے زائد یا تمام رقم وصول ہو جائے تو تمام گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ حساب کر کے ادا کرنا واجب ہے اور اگر اس کے پاس پہلے سے اور مال بقدر نصاب موجود ہے تو وصول شدہ رقم خواہ کسی قدر بھی ہو اس پہلے مال میں ملا کر پہلے رقم کا سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو جائے گی اور اب موجودہ سال کا حساب وصول شدہ رقم کے سال سے نہیں کیا جائے گا البتہ گزشتہ سالوں کا حساب قرضہ کے وقت سے ہی ہو گا ضعیف یہ ہے کہ وہ کسی مال کا بدلہ نہیں ہے یعنی نہ نقدی یا تجارت کے مال کا بدلہ ہے اور نہ مال تجارت کے علاوہ گھریلو سامان کا بدلہ ہے بلکہ یہ مہر ہے یا بدلہ خلع وغیرہ ہے اور چند سال کے بعد وصول ہوا ہے تو اس پر گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے بلکہ کم از کم بقدر نصاب یا اس سے زیادہ یا تمام قرضہ وصول ہونے کے بعد سے اس رقم کا سال شروع ہو گا اور پھر سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو گی لیکن اگر پہلے سے اور رقم بھی بقدر نصاب موجود ہو تو وصول شدہ رقم اس میں ملا کر پہلی رقم کا سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو جائے گی صاحبین کے نزدیک تمام قرضے برابر ہیں اور ان کی زکوٰۃ قبضہ سے پہلے ہی واجب ہو جاتی ہے اور اس کی ادائگی قبضہ کے وقت واجب ہو گی جس قدر وصول ہوتا جائے خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ اس کی زکوٰۃ ادا کرتا جائے لیکن کتابت وسعایت دیت کی دَین اور زخمی کرنے کا جرمانہ اس حکم سے مستثنیٰ ہے کیونکہ یہ چیزیں حقیقتاً دین نہیں ہیں 10. مال پر سال کا گزرنا 1. ایک شرط یہ ہے کہ مال نصاب پر سال گزر جائے یعنی وہ مال پورا سال اس کی ملکیت میں ر ہے 2. زکوٰۃ میں قمری ( چاند کے حساب سے ) سال کا اعتبار ہے 3. پورا سال گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ سال کے دونوں سروں میں پورا ہو درمیان میں اگر نصاب سے کم رہ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں مثلاً کسی کے پاس دس تولہ سونا تھا مگر سال کے بیچ میں پانچ تولہ رہ گیا مگر پھر آخر سال میں دس تولہ ہو گیا تو اسے دس تولہ کی زکوٰۃ دینی ہو گی، اسی طرح اگر کسی کے پاس سو روپے ضرورت سے زائد تھے پھر سال پورا ہونے سے پہلے پچاس روپے اور مل گئے تو سال پورا ہونے پر اس پر پورے ڈیڑھسو روپے کی زکوٰۃ واجب ہو گی اور یہ سمجھا جائے گا کہ پورے ڈیڑھسو پر سال گزر گیا ہے ، اسی طرح اگر کسی کے پاس سو تولہ چاندی رکھی تھی پھر سال گزرنے سے پہلے دو چار تولہ یا زیادہ سونا مل گیا تو اب اس سونے کا سال نیا شروع نہیں ہو گا بلکہ جب چاندی کا سال پورا ہو جائے گا تو سونے کی قیمت کو چاندی کی قیمت میں ملا کر سب مال کی زکوٰۃ واجب ہو گی 4. اگر تجارت کے مال کو نقدی یعنی سونے چاندی یا روپیوں اشرفیوں سے بدلہ یا سونے کو چاندی یا چاندی کو سونے سے بدلہ تو سال کا حکم منقطع نہیں ہو گا کیونکہ یہ سب ایک جنس ہیں اور اگر چرانے والے جانوروں سے بدلا یا چرنے والے جانوروں کو ان کی جنس یا غیر جنس سے بدلا تو سال کا حکم منقطع ہو جائے گا اور نئے سرے سے سال شروع ہو گا 5. جو مال سال کے دوران میں حاصل ہو وہ اس کی جنس میں شامل کیا جائے گا اور پہلے والے مال کا سال پورا ہونے پر نئے اور پرانے سب کو ملا کر زکوٰۃ ادا کی جائے گی مثلاً کسی کے پاس دو سو درہم تھے مگر سال ختم ہونے سے پہلے اس کے پاس دو سو درہم اور آ گئے اور چار سو درہم ہو گئے تو وہ چار سو درہم کی زکوٰۃ دے گا اور اگر سال گزرنے کے بعد نیا مال حاصل ہوا تو وہ پہلے مال میں شامل نہیں کیا جائے گا 6. سونا چاندی اور اس کے سکے و زیور و برتن وغیرہ اور تجارت کا مال ایک ہی جنس ہیں اور ایک دوسرے میں ملائے جائیں گے چرانے والے جانور الگ جنس ہیں وہ نقدی میں نہیں ملائیں گے اسی طرح چرانے والے جانوروں میں بھی الگ اگ جنس ہیں یعنی اونٹ الگ ایک جنس ہیں ، گائے بیل بھینس بھینسا الگ ایک جنس ہیں اور بھیڑ بکری دُنبہ الگ ایک جنس ہیں پس یہ بھی ایک جنس دوسری میں نہیں ملائی جائے گی، مثلاً شروع سال میں کسی کے پاس اونٹ بقدر نصاب تھے اب درمیان سال میں اس کو کچھ بکریاں حاصل ہوئیں تو ان کو اونٹوں کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا 7. جو مال دورانِ سال میں حاصل ہوا اس کو ملانا اس وقت درست ہے جبکہ اصل مال پہلے سے بقدر نصاب ہو اور اگر نصاب سے کم ہو تو اب نیا مال پہلے مال میں ملا کر پہلے مال کے حساب سے سال پورا ہونے پر زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی بلکہ اگر نیا مال ملا کر نصاب پورا ہو جاتا ہے تو اب سے سال شروع ہو گا اور اس سال کے پورا ہونے پر زکوٰۃ فرض ہو گی اسی طرح اگر کسی کے پاس شروع سال میں نصاب پورا تھا پھر دورانِ سال میں کچھ مال خرچ ہو گیا اور نصاب سے کم رہ گیا اس کے بعد نیا مال حاصل ہو گیا تو اس کو ملا کر کل رقم کی زکوٰۃ پہلے مال پر سال پورا ہونے کے بعد ادا کرنی واجب ہو گی جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے لیکن اگر سال کے درمیان میں تمام مال ہلاک ہو گیا یا خرچ ہو گیا اس کے بعد اور مال بقدر نصاب حاصل ہو گیا تو اب پہلے مال کے سال کا اعتبار نہیں ہو گا کیونکہ اس مال کے ختم ہو جانے سے اس کا سال بھی منقطع ہو گیا اب نئے مال پر اس کے ملنے سے سال شروع ہو گا اور اس سال کے پورا ہونے پر زکوٰۃ فرض ہو گی مثلاً اگر کسی شخص کے پاس دس تولہ سونا تھا مگر سال گزرنے سے پہلے سب ضائع ہو گیا تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے پھر اگر سال ختم ہونے سے پہلے اس کو اور دس تولہ سونا حاصل ہو گیا تو اس کے حاصل ہونے کے وقت سے اس پر سال شروع ہو گا اگر کسی شخص کے پاس دو سو درہم تھے اور ان پر ایک دن کم تین سال گزر گئے پھر اس کو پانچ درہم اور حاصل ہوئے تو پہلے سال کے پانچ درہم ادا کرے گا اور دوسرے اور تیسرے سال کے لئے کچھ ادا نہیں کرے گا اس لئے کہ دوسرے اور تیسرے سال میں زکوٰۃ کے دین کی وجہ سے وہ رقم نصاب میں کم رہ گئی ہے پس چونکہ سال کے شروع میں نصاب پورا نہیں ہے اس لئے تیسرے سال میں جو پانچ درہم نئے حاصل ہوئے ہیں وہ اس میں نہیں ملائے جائیں گے کسی کے پاس زکوٰۃ کا مال تھا اس نے سال گزرنے کے بعد ابھی تک اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تھی کہ وہ سارا مال ضائع ہو گیا تو اس کی زکوٰۃ معاف ہے
Top