زکوٰۃ فرض ہونے کی دس شرطیں ہیں
1. آزاد ہونا
2. مسلمان ہونا
3. عاقل ہونا
4. بالغ ہونا
5. بقدر نصاب مال کا مالک ہونا
6. مال نصاب کا پورے طور پر مالک ہونا
7. مال نصاب کا اصلی حاجتوں سے زیادہ ہونا
8. مال نصاب کا قرض سے بچا ہوا ہونا
۹. مال نصاب کا بڑھنے والا ہونا
10. مالک ہونے کے بعد مال پر ایک سال گزرنا
ان میں سے کچھ شرطیں صاحب مال میں پائی جاتی ہیں اور کچھ مال میں ان شرطوں کی ضروری تفصیل درج ذیل ہے
1. آزاد ہونا
زکوٰۃ فرض ہونے کی ایک شرط آزاد ہونا ہے پس غلام پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے
2. مسلمان ہونا
دوسری شرط مسلمان ہونا ہے پس کافر پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے خواہ کافر اصلی ہو یا مرتد ہو، کسی کے ذمہ زکوٰۃ باقی رہنے کے لئے بھی اسلام شرط ہے اس لئے اگر کوئی شخص زکوٰۃ فرض ہونے کے بعد العیاذباللّٰہ مرتد ہو گیا تو اس سے زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی پس اگر وہ کئی سال کے بعد پھر اسلام لے آیا تو زمانہ ارتداد کے سالوں کی زکوٰۃ اس پر واجب نہیں ہو گی کافر اگر دار الحرب میں اسلام لے آیا اس کے بعد چند سال تک وہاں رہا تو اگر وہ زکوٰۃ کی فرضیت کو جانتا تھا تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی اور اس کے ادا کرنے کا فتویٰ دیا جائے گا ورنہ نہیں بخلاف اس کے اگر ذمی کافر دار السلام میں مسلمان ہوا تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی خواہ فرضیتِ زکوٰۃ کا مسئلہ اس کو معلوم ہو یا نہ ہو کیونکہ دار السلام میں نہ جاننا عذر نہیں ہے
3. عاقل ہونا
ایک شرط عاقل ہونا ہے لہذا اس مجنون ( دیوانہ) و معتوبہ ( نیم پاگل) پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے جو تمام سال مجنون ر ہے پس اگر نصاب کا مالک ہونے کے بعد سال کے کسی حصہ میں خواہ اول میں یا آخر میں بہت دنوں کے لئے یا تھوڑے دنوں کے لئے افاقہ ہو گیا تو زکوٰۃ لازم ہو گی یہ ظاہر الروایت ہے اور یہی اصح ہے جس شخص پر بےہوشی طاری ہو اس پر صحیح کی مانند زکوٰۃ واجب ہو گی اگرچہ کامل ایک سال تک بیہوش ر ہے
4. بالغ ہونا
ایک شرط بالغ ہونا ہے پس نابالغ لڑکے پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے اس کے مال پر بالغ ہو جانے کے وقت سے سال شروع ہو گا اور سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو گی اس سے پہلے نہیں
5. بقدر نصاب مال کا مالک ہونا
ایک شرط یہ ہے کہ وہ مال کا مالک ہو اور وہ مال بقدر نصاب ہو، مال سے مراد سکہ رائج الوقت درہم و دینار یا روپیہ اشرفی وغیرہ اور سونا چاندی یا ان دنوں کے زیورات برتن سچا گوٹہ ٹھپہ وغیرہ اور سامانِ تجارت اور جنگل میں چرانے والے جانور ہیں اور بقدر نصاب ہونے سے مراد یہ ہے کہ نصاب کی جو مقدار شرع شریف میں مقرر ہے اس سے کم نہ ہو سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے اور چاندی کا ساڑھے باون تولہ، تجارت کے مال کا سونا یا چاندی کے نصاب کی قیمت کے برابر ہونا ہے ان سب نصابوں اور ان کی زکوٰۃ کی تفصیل آگے الگ الگ بیان میں درج ہے
6. مال نصاب کا پورے طور پر مالک ہونا
ایک شرط یہ ہے کہ وہ بقدر نصاب مال کا پورے طور پر مالک ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملکیت اور قبضہ دونوں پائے جائیں ، اگر صرف ملکیت ہو اور قبضہ نہ ہو جیسا کہ عورت کا مہر قبضے سے پہلے یا قبضہ ہو اور ملکیت نہ ہو جیسا کہ مکاتب غلام اور مقروض کی ملکیت تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی مال ضمار کا بھی یہی حکم ہے جیسا کہ آگے آتا ہے کہ قبضہ کے بعد سے نیا سال شروع ہو گا تجارت کے لئے خریدی ہوئی چیز قبضہ سے پہلے صحیح یہ ہے کہ نصاب ہوتی ہے پس جو مال تجارت کے لئے خریدا اور سال بھر تک اس پر قبضہ نہ کیا تو خریدار پر قبضہ سے قبل زکوٰۃ واجب نہیں اور قبضہ کے بعد گزرے ہوئے سال کی زکوٰۃ بھی واجب ہے
7. مال نصاب کا اس کی اصلی حاجتوں سے زائد ہونا
ایک شرط یہ ہے کہ اس کا مال اس کی اصلی حاجتوں سے فارغ و زائد ہو اصلی حاجتوں سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی انسان کو زندگی بسر کرنے میں ضرورت پڑتی ہے خواہ تحقیقی طور پر ہو جیسا کہ روزمرہ کا خرچ، رہنے کا گھر، لڑائی کے ہتھیار، پہنے اور سردی گرمی سے بچانے کے کپڑے خواہ کتنے ہی قیمتی ہوں اور اسی طرح دستکاروں کے اوزار، خانہ داری کا سامان، سواری کے جانور اور اہل علم کے لئے علمی کتابیں وغیرہ لیکن اگر کپڑوں میں سچا کام بنا ہوا ہے اور وہ اتنا ہے کہ اگر چاندی کو الگ کیا جائے تو ساڑھے باون تولہ یا اس سے زیادہ نکلے یا اس کے پاس اور چاندی یا نقدی یا سونا ہو یا تجارت کا مال ہو اور اس کے ساتھ مل کر نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے تو اس چاندی پر زکوٰۃ واجب ہو گی ورنہ نہیں ، یا تقدیراً ان کی طرف محتاج ہو مثلاً قرضہ، پس ان چیزوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے اس لئے یہ نصاب میں شامل نہیں کی جائیں گی اسی طرح آرائش کے برتن جو سونے چاندی کے نہ ہوں اور جواہرات، موتی، یاقوت و زمرد، سچے موتیوں کا ہار وغیرہ جب کہ وہ تجارت کے لئے نہ ہو اور خرچ کرنے کے لئے جو پیسے خریدے ہوں گھر کا اسباب، چھوٹے بڑے برتن مثلاً پتیلی، دیگچی، دیگ چھوٹی ہو یا بڑی، سینی لگن کھانے پینے کے برتن وغیرہ خواہ کتنے ہی ہوں اور چا ہے روزمرہ کے استعمال میں آتے ہوں یا نہ آتے ہوں ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے خلاصہ یہ ہے کہ سونا چاندی کے علاوہ اور جتنا مال و اسباب ہو اگر وہ تجارت کے لئے نہ ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے لیکن اگر یہ چیزیں تجارت کے لئے ہوں تو پھر ان میں زکوٰۃ فرض ہے دستکاروں کی وہ چیزیں جو خود تو استعمال میں ختم ہو جاتی ہیں لیکن ان کا اثر باقی رہتا ہے جیسے قسم اور زعفران کپڑا رنگنے کے لئے اور کس و تیل کھال رنگنے کے لئے یہ چیزیں اگر بقدر نصاب قیمت کی ہوں اور ان پر سال گزر جائے تو زکوٰۃ واجب ہو جائے گی عطاروں کی شیشیاں اور ان گھوڑوں وغیرہ کے لگام، رسیاں ، مہاریں ، جھول وغیرہ جو تجارت کے لئے خریدے گئے ہیں اگر یہ چیزیں ساتھ میں فروخت کی جائیں گی تو ان میں بھی زکوٰۃ ہے ورنہ نہیں کرایہ پر چلانے والے مال و اسباب میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی پس اگر کسی کے پاس کچھ مکانات ہوں یا برتن ہوں جن کو وہ کرایہ پر چلاتا ہو تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے خواہ کتنی ہی قیمت کے ہوں
8. مال نصاب کا قرض سے بچا ہوا ہونا
1. ایک شرط یہ ہے کہ اس کا مال قرض سے بچا ہوا ہو، کیونکہ مال قرض میں ہونے کی وجہ سے تقدیراً حاجت اصلیہ میں لگا ہوا ہے پس اگر کسی شخص کے پاس دو سو درہم ہیں اور اتنے ہی درہموں کا وہ قرضدار ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، اس لئے وہ نہ ہونے کے حکم میں ہے اور اس لئے بھی کہ وہ قبضہ میں نہ ہونے کی وجہ سے ملکِ تام نہیں ہے
2. قرضہ سے مراد وہ قرضہ ہے جس کا طلب کرنے والا کوئی بندہ ہو خواہ وہ قرض اللّٰہ تعالیٰ کا قرض ہی ہو جیسا کہ زکوٰۃ اور خراج کا قرض اور جس کا طلب کرنے والا کوئی بندہ نہیں وہ وجوب زکوٰۃ کا مانع نہیں جیسے نذر کفارہ اور حج وغیرہ کا دین اور صدقہ فطر اور قربانی وغیرہ کا دین،
3. دَینِ مہر معجل زکوٰۃ واجب ہونے کا مانع ہے متعلقاً بلا اختلاف اور دَینِ مہر موجل کے وجوب زکوٰۃ کا مانع ہونے میں اختلاف ہے ، بعض فقہ نے معجل و موجل دونوں کو مانع زکوٰۃ کہا ہے عالمگیری میں ہے کہ ظاہر مذہب کے بموجب یہی صحیح ہے اور بعض مشائخ کے نزدیک معجل مانع وجوبِ زکوٰۃ ہے موجل مانع نہیں ہے ، اور قہستانی نے جواہر سے اس کی تصحیح کی ہے اور بعض علماء نے اِس کو فتویٰ کے لئے اختیار کیا ہے لیکن اکثر کے نزدیک فتویٰ کے لئے مختار یہ ہے کہ دینِ مہر معجل و موجل دونوں مانع وجوب زکوٰۃ ہیں واللّٰہ اعلم بالصواب
4. دین ( قرضہ) خواہ اصالت کے طور پر ہو یعنی وہ شخص خود مقروض ہو یا کفالت کے طور پر ہو یعنی کسی قرضدار کا کفیل ہو ہر طرح زکوٰۃ واجب ہونے کا مانع ہے
5. زکوٰۃ کا قرضہ بھی وجوب زکوٰۃ کا مانع ہے پس اگر کسی شخص کے پاس بقدر نصاب مال مثلاً دو سو درہم ہے اور اس پر دو سال گزر گئے اور اس نے ان دو سالوں کی زکوٰۃ نہیں دی تو اس پر دوسرے سال کی زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ پہلے سال کی زکوٰۃ پانچ درہم جو اس کے ذمہ قرض ہے نکالنے کے بعد اس کا مال بقدر نصاب نہیں ر ہے گا
6. اسی طرح خراج کا قرضہ بھی زکوٰۃ واجب ہونے کا مانع ہے اس لئے کہ اس کا بھی بندوں کی طرف سے مطالبہ کیا جاتا ہے
7. قرضہ اس صورت میں مانع وجوبِ زکوٰۃ ہے جب کہ زکوٰۃ کے واجب ہونے سے پہلے کا ہو پس اگر زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد یعنی سال پورا ہونے کے بعد لاحق ہوا تو زکوٰۃ ساقط نہیں ہو گی
8. جو قرضہ دوران سال لاحق ہوا اور وہ تمام نصاب کے برابر ہے یا نصاب کو کم کر دینے والا ہے پھر اگر سال کے اخیر تک نصاب پورا نہیں ہو سکا تو بالاتفاق مانع وجوبِ زکوٰۃ ہے اگر سال پورا ہونے سے پہلے وہ قرض معاف ہو کر یا کسی اور ذریعہ سے نیا مال حاصل ہو کر دَین نکالنے کے بعد نصاب پورا ہو گیا تو امام محمد کے نزدیک وہ مانع وجوب ہو گا اور قرض معاف ہونے یا نیا مال حاصل ہونے کے وقت سے نیا سال شروع ہو گا، بحر الرائق میں اسی کو ترجیع دی ہے اور شامی نے اسی کو اوجہ کہا ہے لیکن المجتبیٰ اور بدائع کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ وجوب زکوٰۃ کا مانع نہ ہونا ہمارے تینوں اماموں کا قول ہے واللّٰہ اعلم
۹. اگر مقروض چند نصابوں کا مالک ہے اور ہر نصاب سے قرضہ ادا ہو جاتا ہے تو قرضہ اس نصاب کی طرف لگایا جائے گا جس سے قرض ادا کرنا زیادہ آسان ہو پس پہلے درہم و دینار( روپیہ و اشرفی وغیرہ نقدی) کی طرف لگایا جائے گا اگر اس سے پورا نہ ہو تو پھر تجارت کے مال کی طرف لگایا جائے گا اگر پھر بھی بچ ر ہے تو چرنے والے جانوروں کی طرف لگایا جائے گا یہ حکم اس وقت ہے جب کہ بادشاہ کی طرف سے وصول کرنے والا ہو اور اگر خود صاحب مال ادا کرے تو اس کو اختیار ہے چا ہے جس سے ادا کرے
۹ مال نصاب کا بڑھنے والا ہونا
1. ایک شرط یہ ہے کہ مال نصاب بڑھنے والا ہو خواہ حقیقتاً بڑھنے والا ہو جیسے نقدی کا تجارت سے اور جانوروں کا تولد وتناسل سے بڑھنا یا تقدیراً یعنی حکماً بڑھنے والا ہو یعنی وہ تجارت وغیرہ کے ذریعہ اس کے بڑھانے پر قادر ہو اس طرح پر کہ مال اس کے یا اس کے نائب کے قبضہ میں ہو
2. بڑھنے والا مال دو طرح کا ہوتا ایک خلقی اور وہ سونا چاندی ہے ، ان دونوں میں خواہ تجارت کی نیت کرے یا نہ کرے یا خرچ کرنے کی نیت کرے یا زیور وغیرہ بنا کر یا ویسے ہی رکھ چھوڑے استعمال نہ بھی کرے ہر حال میں زکوٰۃ واجب ہے دوسرا فعلی، سونے چاندی کے علاوہ سب اموال فعلی طور پر بڑھنے والے ہیں کیونکہ یہ تجارت یا چرائی کے فعل سے بڑھیں گے ، اس قسم کے مال میں تجارت کی نیت سے یا جانوروں کے چرانے کی نیت سے بڑھنے پر زکوٰۃ ہے ورنہ نہیں اور نیت کا تجارت یا چرائی کے فعل کے ساتھ متصل ہونا ضروری ہے ورنہ نیت معتبر نہیں ہو گی نیت کبھی صریحاً بھی ہوتی ہے جیسا معاملہ کرتے وقت یہ نیت کرے کہ یہ تجارت کے لئے ہے پس اگر روزمرہ کے استعمال کی نیت کی تو وہ تجارت کے لئے نہیں ہو گا اور کبھی دلالتاً بھی ہوتی ہے مثلاً تجارت کے مال کے بدلہ کوئی چیز خریدے یا جو گھر تجارت کے لئے ہے اس کو کسی اسباب کے عوض کرایہ پر دے تو خواہ صریحاً تجارت کی نیت نہ بھی کرے یہ اسباب تجارت کے لئے ہو جائے گا مضاربت کے مال کے لئے تجارت کی نیت کا ہونا شرط نہیں ہے پس مضاربت خواہ کسی نیت سے مال خریدے وہ تجارت ہی کا ہو گا
3. مال ضمار میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے اس لئے کہ اس میں مِلک ہونا اور بڑھنا دونوں نہیں پائے جاتے اور مال ضمار شرعاً وہ مال ہے جس کی اصل اس کی مِلک میں باقی ر ہے لیکن وہ اس کے قبضہ سے ایسا نکل گیا ہو کہ غالب طور پر اس کے واپس ملنے کی امید نہ ر ہے پس جب مالِ ضمار پر قبضہ کرے تو اس پر گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے منجملہ مالِ ضمار وہ قرضہ ہے جس کا قرضدار نے انکار کر دیا ہو خواہ اس پر گواہ ہوں یا نہ ہوں اور خواہ گواہ عادل ہوں یا غیر عادل ہوں اور خواہ قاضی نے حلف لے لیا ہو یا نہ لیا ہو ہر حال میں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی، اور اگر مقروض قرضہ کا اقرار کرتا ہے تو خواہ وہ مالدار ہو یا مفلس، اگر قاضی نے اس کو مفلس ہونے کا حکم جاری نہیں کیا ہے تو بالاتفاق اس مال پر قبضہ کے بعد گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ واجب ہو گی اور اگر قاضی نے اس کو مفلس ہونے کا حکم جاری و مشتہر کر دیا تو اس میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک اس پر گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ واجب ہے پس جب وہ اس مال پر قبضہ کر لے تو گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ ادا کرے اسی پر فتویٰ ہے
4. کسی نے کسی کا مال غضب کر لیا خواہ اس پر گواہ ہوں یا نہ ہوں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ وہ بھی مال ضمار ہے اور اس میں بھی قبضہ کے بعد گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، قبضہ کے وقت سے نیا سال شروع ہو گا ظلماً لئے ہوئے مال کا بھی یہی حکم ہے ، اسی طرح جو مال گم ہو گیا ہو پھر کئی سال کے بعد مل گیا ہو اور جو جانور یا غلام بھاگ گیا ہو اور اس کو ایک سال یا چند سال گزرنے کے بعد پا لیا ہو اور جو مال دریا یا سمندر میں گر گیا ہو پھر ایک سال یا چند سال گزرنے کے بعد نکالا گیا ہو اور وہ مال جس کو جنگل یا بڑے احاطہ میں دفن کیا ہو اور جگہ بھول گیا ہو پھر کئی سال کے بعد وہ جگہ یاد آئی ہو اور مال مل گیا ہو اور وہ مال جو کسی اجنبی کے پاس امانت رکھا ہو اور پھر اس شخص کو بھول گیا ہو پھر ایک سال یا چند سال کے بعد وہ مال مل گیا ہو تو یہ سب مالِ ضمار کی صورتیں ہیں ان سب میں قبضہ کے بعد گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی بلکہ قبضہ کے وقت سے نیا سال شروع ہو گا