ایمان کے ارکان
ایمان کے ارکان ایمان کے دو رکن ہیں ا. اقرار بللسان یعنی دین کے احکام جو تواتر کے ساتھ مجمل اور مفصل طور پر ہم تک پہچے ہیں ان کا زبان سے اقرار کرے ( ان احکام کی تفصیل صفت ایمان مجمل اور مفصل میں ہے )۔ ب. تصدیق بالقلب یعنی ایمان مجمل اور ایمان مفصل کی دل سے تصدیق کرے ان کو دل سے مانے اور یقین کرے، اقرار اور تصدیق کی چار صورتیں ہیں 1. جس نے زبان سے اقرار اور دل سے صدیق کی وہ اللہ کے نزدیک بھی مومن ہے اور جنت کا مستحق ہے اور دنیا کے لوگوں کے نزدیک بھی مومن اور دنیا میں مومنوں کے حقوق کا حقدار ہے۔ 2. جو ان دونوں ارکان سے محروم ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی کافر ہے اور ہمیشہ کے لئے دوزخ کا مستحق ہے اور لوگوں کے نزدیک بھی کافر اور دنیا میں مومنون کے حقوق سے محروم ہے۔ 3. جس نے دل سے تصدیق کی اور زبان سے اقرار نہیں کیا تو دنیا کے احکام میں اس کو مومن نہیں کہیں گے اور حقوق مومنین سے محروم رہے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ مومن ہے اور آخرت میں جنت کا مستحق ہے۔ پس حالت اضطرار میں کلمہ کفر کہنے سے وہ شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن ہے اگرچہ لوگ اسے کافر کہیں۔ اس طرح گونگے آدمی کا ایمان اقرار زبانی کے بغیر بھی معتبر ہے 4. جس نے زبان سے اقرار کیا اور دل سے تصدیق نہیں کی وہ لوگوں کو نزدیک ظاہراً احکام میں مومن ہے اور اللہ کو نزدیک وہ کافر ہے۔ اس کو شرع میں منافق کہتے ہیں۔ منافقین دنیا میں مومن کہلا کر اپنے آپ ان شرعی حدود سے جو کفار کے متعلق ہیں بچا لیں گے لیکن آخرت میں ان کے لئے ہمیشہ کی دوزخ اور دردناک عذاب ہے۔ حضور انور ﷺ کے زمانے میں منافقین کو قران مجید اور وحی الہی کے ذریعہ سے ظاہر و متعین کر دیا گیا تھا آپ کے بعد کے کسی زمانے میں کسی خاص شخص کو یقین کے ساتھ منافق نہیں کہ سکتے۔
Top