1.اگر ایسے امام کے پیچھے عیدین کی نماز پڑھی جس کے نزدیک زائد تکبیروں میں رفع یدین نہیں ہے تو مقتدی رفع یدین کر لے
2.اگر امام نے چھ سے زیادہ تکبیریں کہیں تو تیرہ تکبیروں تک مقتدی امام کی پیروی کرے جبکہ امام کے قریب ہو اور خود سنتا ہو، تیرہ سے زیادہ میں پیروی نہ کرے کیونکہ تیرہ تکبیروں سے زائد صحابہ کرام سے منقول نہیں اور کسی فقہ کا مذہب بھی نہیں ہے اگر امام سے دور ہو اور تکبیریں دوسرے تکبیر کہنے والوں سے سنے تو جتنی سنے سب کی پیروی کرے کیونکہ اس میں تکبیروں کی غلطی کا امکان ہے اس لئے امام کی تکبیروں کا متعین کرنا ممکن نہیں ہے
3.اگر کوئی شخص پہلی رکعت میں ایسے وقت پہنچا کہ امام عید کی زائد تکبیریں کہہ چکا ہے اور ابھی قیام میں ہے اگرچہ قرأت شروع کر چکا ہو تو یہ شخص نیت باندھ کر اسی وقت عید کی تین تکبیریں کہہ لے
4.اگر عید کی نماز میں کوئی شخص اس وقت پہنچا جب امام رکوع میں ہے تو یہ تکبیر تحریمہ کہے پھر اگر اس کو گمان غالب ہے کہ تین زائد تکبیریں کہنے کے بعد رکوع مل سکتا ہے تو کہہ لے پھر رکوع میں جائے اور اگر تکبیریں کہہ کر رکوع ملنے کا گمان غالب نہیں ہے تو تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع میں چلا جائے اور رکوع کی تسبیح کے بجائے یہ تین زائد تکبیریں کہہ لے اور ان میں ہاتھ نہ اٹھائے اگر تین تکبیریں پوری نہ کہہ سکا کہ امام نے رکوع سے سر اٹھا دیا تو یہ بھی باقی تکبیریں چھوڑ کر امام کی
متابعت کرے اور رکوع سے اٹھ جائے باقی تکبیریں اس سے ساقط ہو جائیں گی اور اگر امام کو قومہ میں پایا تو اس وقت تکبیریں نہ کہے اور جب امام کے سلام کے بعد اپنی پہلی رکعت مسبوقانہ پڑھے اس میں ان تکبیروں کو ادا کرے لیکن اس مسبوقانہ رکعت میں ثنا کے بعد اور الحمد سے پہلے نہ کہے بلکہ الحمد اور سورة کی قرأت سے فارغ ہو کر رکوع میں جانے سے پہلے کہے
5.اگر عید کی نماز میں اس وقت شریک ہوا جبکہ امام تشہد پڑھ چکا ہے اور ابھی سلام نہیں پھیرا یا سجدہ سہو کے لئے سلام پھیر چکا ہے لیکن ابھی سجدہ سہو نہیں کیا یا سجدۂ سہو کر چکا ہے لیکن اس کے بعد کے تشہد میں ہے اور ابھی ختم کا سلام نہیں پھیرا تو وہ امام کے فارغ ہونے کے بعد عید کی مسبوقانہ نماز پوری کرے اور تکبیرات دونوں رکعتوں میں اپنے مقام پر کہے اس کی عید کی نماز میں شمولیت صحیح ہو گی یہی صحیح ہے
6.اگر مقتدی دوسری رکعت میں شامل ہوا تو پہلی رکعت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ رکعت پڑھے اس وقت قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے کہے جیسا کہ اوپر نمبر 4 میں بیان ہوا اور اگر دوسری رکعت کی تکبیریں امام کے ساتھ نہ ملی یعنی وہ دوسری رکعت کے رکوع کے بعد شامل ہو اور دوسری رکعت امام کے ساتھ نہیں ملی تو دونوں رکعتیں مسبوقانہ پڑھے اور زائد تکبیریں ہر رکعت میں اپنے اپنے موقع پر پڑھے جیسا کہ نمبر 5 میں بیان ہوا
7.لاحق امام کے مذہب کے مطابق تکبیریں کہے یعنی جب اپنی لاحقانہ نماز میں تکبیریں کہے تو جتنی امام نے کہیں اتنی کہے اس لئے کہ وہ امام کے پیچھے ہے اور مسبوق اپنی مذہب کے مطابق تکبیریں کہے
8.اگر امام عید کی نماز میں پہلی رکعت میں زائد تکبیریں کہنا بھول گیا اور الحمد شروع کر دی تو وہ قرأت کے بعد تکبیریں کہہ لے اور اگر رکوع میں یاد آئے تو رکوع میں سر اٹھانے سے پہلے کہہ لے اور قرأت کا اعادہ نہ کرے اور اگر دوسری رکعت میں تکبیریں بھول گیا اور رکوع میں چلا گیا تب بھی رکوع میں کہہ لے اور قیام کی طرف نہ لوٹے اگر قیام کی طرف لوٹ جائے گا تب بھی جائز ہے نماز فاسد نہ ہو گی لیکن رکوع کا اعادہ کرے اور قرأت کا اعادہ نہ کرے
۹.عیدین کی نماز میں دوسری رکعت کے رکوع میں جاتے وقت کی تکبیر واجب ہے پس اگر امام سے زائد تکبیریں کل یا بعض یا رکوع میں جانے کی تکبیر فوت ہو گئی تو سجدۂ سہو لازم آتا ہے اگر کر لے تو جائز ہے لیکن جمعہ و عیدین میں کثرت ہجوم کی وجہ سے سجدۂ سہو کا ترک افضل ہے خواہ کسی وجہ سے لازم ہوا ہو اگر ان واجب تکبیروں کو قصداً ترک کرے گا تو مکروہِ تحریمی ہو گا
10.اگر کسی کو عید کی نماز نہ ملی ہو یا شامل ہوا اور اس کی نماز فاسد ہو گئی ہو اور سب لوگ پڑھ چکے ہوں تو وہ شخص تنہا عید کی نماز نہیں پڑھ سکتا کیونکہ اس میں جماعت شرط ہے اور فاسد ہو جانے کی صورت میں قضا بھی لازم نہیں ہے ، لیکن اگر دوسری جگہ عید کی نماز مل سکتی ہو تو وہاں جا کر شامل ہو جائے کیونکہ عید کی نماز بالاتفاق ایک شہر میں متعدد جگہ جائز ہے اور اگر کئی آدمیوں کو عید کی نماز نہ ملی ہو تو وہ دوسری مسجد میں جہاں عید کی نماز نہ پڑھی گئی ہو نماز عید کی جماعت کر لیں اور ان میں کوئی ایک شخص امام ہو جائے یہ جائز ہے اور اگر یہ صورت بھی ممکن نہیں اور دوسری جگہ بھی نماز نہ ملے تو گھر آ کر چار رکعت نماز چاشت پڑھ لے اور ان میں زائد تکبیریں نہ کہے کیونکہ یہ نماز عید کی قضا نہیں بلکہ چاشت کے نوافل ہیں
11.اگر امام نے عید الفطر کی نماز پڑھائی اور نماز کے بعد زوال سے پہلے نیز لوگوں کے متفرق ہونے سے پہلے معلوم ہوا کہ امام نے بے وضو نماز پڑھائی تھی تو نماز کا اعادہ کریں اور اگر زوال سے پہلے لیکن لوگوں کے متفرق ہونے کے بعد معلوم ہوا تو اب اعادہ نہ کریں نہ اس روز اور نہ دوسرے روز، اور اگر زوال کے بعد معلوم ہوا تو دوسرے دن نماز کا اعادہ کریں اور اگر دوسرے دن زوال کے بعد معلوم ہو تو اعادہ نہ کریں اور اگر عید الاضحٰی میں ایسا ہو تو اگر اسی روز زوال سے پہلے معلوم ہو گیا تو سب آدمیوں میں نماز کے اعادہ کے لئے منادی کرا دیں اور اعادہ کریں اور جس نے معلوم ہونے سے پہلے قربانی کر لی ہے اس کی قربانی جائز ہے معلوم ہونے کی بعد سے زوال تک قربانی جائز نہیں اور اگر زوال کے بعد معلوم ہوا اور لوگوں نے قربانیاں کر لیں تو قربانیاں جائز ہیں ، دوسرے روز نماز کا اعادہ کریں ، دوسرے روز معلوم ہو تو زوال سے پہلے نماز کا اعادہ کریں اور اگر زوال ہو چکا تو تیسرے دن ( بارہویں ذی الحجہ کو) زوال سے پہلے پڑھ لیں اگر تیسرے روز زوال کے بعد معلوم ہو تو اعادہ نہ کرے
12.اگر عید کی نماز کے وقت جنازہ بھی حاضر ہو تو عید کی نماز کو مقدم کریں گے اور عید کے خطبے پر نماز جنازہ کو مقدم کریں گے
13.عیدین کی نماز کے بعد یا خطبے کے بعد دعا مانگنا منقول نہیں ہے لیکن عموماً ہر نماز کے بعد دعا مانگنا سنت ہے اس لئے عیدین میں بھی نماز کے بعد دعا مانگنا بہتر و افضل ہونا چاہئے نماز کے بعد کی بجائے خطبے کے بعد دعا مانگنا خلاف اولٰی ہونا چاہئے اور اگر دونوں جگہ ترک کرے تو اس کی بھی گنجائش ہے