١. نماز کسی حالت میں ترک نہ کرے جب تک کھڑا ہو کر نماز پڑھنے کی قوت ہے کھڑے ہو کر نماز پڑھے اور جس شخص کو بیماری یا کسی اور عذر کی وجہ سے بالکل کھڑے ہونے کی طاقت نہ ہو یا کھڑے ہونے سے سخت تکلیف ہو یا مرض کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو یا سر میں چکر آ کر گر جانے کا خوف ہو تو ان سب صورتوں میں فرض و واجب نماز بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ پڑھنا چاہئے اور رکوع کے لئے اتنا جھکے کہ پیشانی گھٹنوں کے مقابل ہو جائے
٢. اگر کسی شخص کو قیام کی طاقت تو ہے لیکن رکوع و سجود سے عاجز ہے یا قیام و رکوع و سجود تینوں کی طاقت نہیں ہے اور بیٹھنے پر قادر ہے تو بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھے۔سجدے کا اشارہ رکوع سے زیادہ نیچے تک کرے یعنی رکوع کے لئے تھوڑا جھکے اور سجدے میں اس سے زیادہ جھکے-اگر دونوں برابر کرے گا تو نماز صحیح نہیں ہو گی
٣. اگر کوئی شخص قیام کے پورے وقت قیام نہیں کر سکتا لیکن تھوڑی دیر-کھڑا ہو سکتا ہے تو جس قدر قیام کر سکتا ہے اسی قدر قیام کرنا فرض ہے
٤. اگر دیوار وغیرہ کا سہارا لگا کر کھڑا ہونے پر قادر ہے تو صحیح یہ ہے کہ سہارا لگا کر کھڑا ہو کر نماز پڑھے ورنہ درست نہ ہو گی- اگر کوئی شخص طویل قرأت کے سبب سے کھڑا ہوا تھک جائے اور تکلیف ہونے لگے تو اس کو کسی دیوار یا درخت یا لکڑی وغیرہ کا سہارا لینا مکروہ نہیں ہے لیکن بلا ضرورت ایسا کرنا مکروہِ تنزیہی ہے
٥. اگر گھر میں قیام کر کے نماز پڑھ سکتا ہو اور مسجد میں جماعت کے لئے جانے کے بعد قیام پر قادر نہیں رہتا تو اپنے گھر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھے پس اگر گھر میں جماعت میسر ہو تو جماعت سے پڑھے ورنہ اکیلا پڑھ لے۔ اگر رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی صورت میں کھڑا ہونے پر قادر نہیں رہتا اور روزہ نہ رکھنے کی صورت میں قیام کر سکتا ہے تو رمضان المبارک کے روزے رکھے اور بیٹھ کر نماز پڑھے
٦. بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں کسی خاص وضع پر بیٹھنا ضروری نہیں بلکہ جس طرح پر آسانی ہو اسی طرح بیٹھے لیکن اگر دو زانو یعنی تشہد میں بیٹھنے کی طرح بیٹھنا آسان ہو یا دوسری طرح بیٹھنے کے برابر ہو تو دو زانو بیٹھنا بہتر ہے
٧. سجدے کے لئے تکیہ یا اینٹ یا تختی وغیرہ کوئی چیز پیشانی کے قریب تک اٹھا کر اس پر سجدہ کرنا مکروہِ تحریمی ہے خواہ خود اٹھائی ہو یا کسی دوسرے نے اس کے لئے اٹھائے ہو اگر تکیہ یا اینٹ وغیرہ کوئی اونچی چیز زمین یا چوکی وغیرہ پر رکھی ہو اس پر سجدہ کرے اور رکوع کے لئے بھی صرف اشارہ نہ ہو بلکہ پیٹھ جھکائی ہو تو رکوع و سجود کرنے والے کی نماز صحیح ہے
8.اگر پیشانی پر زخم ہو ناک پر سجدہ کرنا فرض ہے اس کو اشارہ سے نماز پڑھنا درست نہیں ہے
۹.اگر مریض یا معذور بیٹھنے پر قادر نہیں تو لیٹ کر اشارہ سے نماز پڑھے اس کی صورت یہ ہے کہ چت لیٹ جائے اور اپنے دونوں پاؤں قبلے کی طرف کرے، اگر ہو سکے تو دونوں گھٹنوں کو کھڑا کر کے قبلے کی طرف پاؤں نہ پھلائے ، اور اگر ایسا نہ کر سکے تو پاؤں پھیلا لے اور سر کے نیچے تکیہ وغیرہ رکھ کر سر کو ذرا اونچا کر دیا جائے اور رکوع و سجود کے لئے سر جھکا کر اشارہ سے نماز پڑھے اور سجدے کا اشارہ زیادہ نیچا کرے یہ صورت افضل ہے جائز یہ بھی ہے کہ شمال کی جانب سر کر کے داہنی کروٹ پر لیٹے یا جنوب کی جانب سر کر کے بائیں طرف کروٹ پر لیٹے اور اشارہ سے نماز پڑھے اور دونوں صورتوں میں داہنی کروٹ پر لیٹنا افضل ہے
10.اگر تندرست آدمی نے کھڑے ہو کر نماز شروع کی پھر اس کو کوئی ایسا مرض لاحق ہو گیا کہ قیام نہیں کر سکتا مثلاً رگ چڑھ گئی تو باقی نماز بیٹھ کر پڑھ لے نئے سرے سے پڑھنے کی ضرورت نہیں اور اگر وہ رکوع و سجود پر بھی قادر نہ رہے تو بیٹھ کر اشارے سے باقی نماز پڑھے اور اگر بیٹھنے پر بھی قادر نہیں رہا تو لیٹ کر اشارے سے باقی نماز پڑھے
11.اگر کوئی شخص عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھ رہا تھا کہ نماز میں تندرست ہو گیا اور قیام پر قادر ہو گیا تو باقی نماز کھڑے ہو کر پوری ادا کرے اور اگر بیماری کی وجہ سے رکوع و سجود کی قوت نہ تھی اس لئے سر کے اشارہ سے رکوع و سجود کیا پھر جب کچھ نماز پڑھ چکا تو رکوع و سجود پر قادر ہو گیا تو اب یہ نماز جاتی رہی اس کو پورا نہ کرے بلکہ نئے سرے سے رکوع و سجود کے ساتھ پڑھے، اور اگر ابھی اشارے سے رکوع و سجود نہ کیا ہو کہ تندرست ہو گیا تو نماز کا وہ ادا کیا ہوا حصہ صحیح ہے اسی کو رکوع و سجود کے ساتھ ادا کر لے
12.جو نمازیں عذر کی وجہ سے اشارے سے پڑھیں ہیں صحت کے بعد ان کا اعادہ نہیں ہے جبکہ وہ عذر سماوی یعنی قدرتی ہو اور اگر عذر بندے کی طرف سے ہو تو عذر دور ہونے کے بعد اس کا اعادہ ضروری ہے
13.جب مریض سر کے ساتھ اشارہ کرنے سے بھی عاجز ہو جائے تو اس وقت نماز پڑھنا اس پر فرض نہیں ہے اور اس کو آنکھ یا ابرو یا دل کے اشارہ سے نماز پڑھنا ضروری نہیں ہے کیونکہ ان چیزوں کے اشارہ کا کچھ اعتبار نہیں ہے ، ان نمازوں کی قضا واجب ہونے یا نہ ہونے کے متعلق چار صورتیں ہیں
اول:اگر ایسا مرض ایک دن رات یعنی پانچ نمازوں سے زیادہ رہا ہو اور عقل بھی قائم نہ رہی تو بالاتفاق حالتِ مرض کی نمازوں کی قضا نہیں ہے
دوم:اگر ایک دن رات سے کم مرض رہا اور عقل قائم رہی تو ان نمازوں کی قضا بالاجماع لازمی ہے ، پس اگر ایک دن رات میں پھر اس قدر صحت ہو گئی کہ سر کے اشارہ سے ادا کر سکتا ہے تو ان نمازوں کو اشارہ سے ادا کر لے اور یہ خیال نہ کرے کہ جب بالکل اچھا ہو جاؤں گا تب پڑھ لوں گا کہ شاید مر جائے گا تو گناہگار ہو گا اور ان نمازوں کے فدیہ کی وصیت کرنی لازمی ہو گی
سوم:اگر ایک دن رات سے زیادہ مرض رہا اور عقل قائم رہی اور
چہارم:اگر مرض دن رات سے کم رہا لیکن عقل قائم نہ رہی تو ان دونوں صورتوں میں اختلاف ہے ظاہر الروایتہ یہ ہے کہ ان کی قضا لازم ہے
14.اگر کوئی شخص پانچ نمازوں کے وقت تک بیہوش رہا تو ان نمازوں کو قضا کرے، اگر بیہوشی پانچ نمازوں سے بڑھ جائے اور درمیان میں کچھ افاقہ نہ ہو تو اب ان نمازوں کی قضا نہ کرے کیونکہ اب نماز اس سے ساقط ہو گئی، جنون کا حکم بھی بیہوشی کی مانند ہے اور اگر کسی کو نشہ آور چیز کے استعمال سے ایک دن رات سے زیادہ عقل جاتی رہی تو اس سے نماز ساقط نہیں ہو گی خواہ اپنی مرضی سے استعمال کرے یا کوئی مجبور کر کے استعمال کرا دے کیونکہ بندوں کے فعل سے اللّٰہ تعالی کا حق ساقط نہیں ہوتا
15.جو نمازیں حالتِ مرض میں قضا ہو گئیں جب صحت ہونے پر ان کو قضا کرے تو صحت کی حالت کی طرح ادا کرے بیماری کی حالت کی طرح بیٹھ کر یا اشارہ سے ادا کرے گا تو ادا نہ ہو گی اور اگر صحت کی حالت میں کچھ نمازیں قضا ہو گئیں تھیں پھر بیمار ہو گیا اور ان کو بیماری کی حالت میں قضا کرنا چاہتا ہے تو بیٹھ کر یا اشارے سے اس طرح پڑھے جس طرح پڑھنے پر اب قادر ہو اور یہ انتظار نہ کرے کہ جب قیام یا قعود اور رکوع و سجود کی طاقت آ جائے گی تب پڑھوں گا یہ سب شیطانی خیالات ہیں ، قضا کرنے میں دیر نہ کرے ایسا نہ ہو کہ موت آ جائے اور یہ توفیق نہ ہو سکے
16.اگر فالج وغیرہ کی وجہ سے ایسا بیمار ہو گیا کہ پانی سے استنجا نہیں کر سکتا تو کپڑے یا ڈھیلے سے پونچھ ڈالے اور اسی طرح نماز پڑھ لے اگر خود تیمم نہ کر سکے تو کوئی دوسرا تیمم کرا دے، اگر کپڑے یا ڈھیلے سے پونچھنے کی بھی طاقت نہیں ہے تب بھی نماز قضا نہ کرے اس طرح پڑھ لے ہاں اگر وہ خاوند والی عورت یا بیوی والا خاوند ہو تو ایک دوسرے کا بدن پونچھ دے اور اگر دھونا ضرر نہ کرے تو دھو دے، دوسرا کوئی ایسا نہ کرے خواہ ماں باپ اور لڑکا، لڑکی ہی ہو
17.تندرست آدمی کو نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے لیکن بلا عذر ایسا کرنے میں نصف ثواب ملتا ہے اگر عذر کے ساتھ نفل بیٹھ کر پڑھے تو پورا ثواب ملتا ہے