1.شک کی صورت میں کسی طرف گمان غالب ہو جائے تو اس کو اختیار کرنا لازمی ہے اور سجدۂ سہو واجب نہیں لیکن اگر تفکر کرتے ہوئے ایک رکن ( تین مرتبہ سبحان اللّٰہ کہنے) کی مقدار تاخیر ہو جائے تو اس کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہو گا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے ، اور اگر کسی طرف گمان غالب نہ ہو سکے تو کمی کی جانب کو اختیار کرنا چاہئے تفصیل آگے آتی ہے ، اور اس پر مطلقاً سجدۂ سہو واجب ہے خواہ رکن مقدار تفکر کرے یا نہ کرے
2.اگر کسی کو نماز میں شک ہوا کہ مثلاً تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار، اگر ایسا اتفاق پہلی دفعہ ہوا یعنی اس کی عادت بھولنے کی نہ ہو تو پہلی نماز کو توڑ دے اور نئے سرے سے نماز پڑھے، اور اگر کسی کو شک کرنے کی عادت ہو اور اکثر اس کو شبہ پڑ جاتا ہو تو دل میں سوچ کر گمان غالب پر عمل کرے اور سجدۂ سہو نہ کرے اور اگر سوچنے کے بعد بھی دونوں طرف برابر خیال رہے تو کمی کی جانب کو مقرر کر لے اور اگر یہ شک ہے کہ دوسری رکعت ہے یا تیسری تو دوسری مقرر کر لے اور اگر یہ شک ہو کہ تیسری ہے یا چوتھی تو تیسری رکعت مقرر کر لے اور شک کے بعد کی ہر رکعت پر قعدہ کرے تاکہ قعدہ کا فرض و واجب ترک نہ ہو اور آخری قعدہ میں سجدۂ سہو کر ے، پس اگر چار رکعتی فرض نماز میں یہ شک ہوا کہ یہ پہلی رکعت ہو یا دوسری اور کسی طرف گمان غالب نہیں ہوا تو پہلی ہی سمجھے اور اس پہلی رکعت کو پڑھ کر قعدہ کرے اور التحیات پڑھے کہ شاید یہ دوسری رکعت ہو پھر دوسری رکعت پڑھے اور اس میں الحمد کے بعد سورت بھی پڑھے اور اس پر بیٹھے اور التحیات پڑھ کر کھڑا ہو کر تیسری رکعت پڑھے اس میں صرف الحمد پڑھے اور قعدہ بھی کرے کہ شاید یہ چوتھی رکعت ہو پھر چوتھی رکعت پڑھے اور قعدہ کرے اس قعدہ میں سجدۂ سہو کر کے نماز ختم کرے اور اگر یہ شک ہو کہ دوسری رکعت ہے یا تیسری تب بھی یہی حکم ہے کہ اس کو دوسری مقرر کر لے اور دوسری رکعت پر قعدہ کر کے تیسری رکعت پڑھے اور قعدہ بھی کرے کہ شاید یہ چوتھی ہو پھر چوتھی رکعت پڑھ کر قعدہ کرے اور سجدۂ سہو کر کے سلام پھیرے علی ہذا القیاس تیسری اور چوتھی میں شک ہو تو تیسری مقرر کر لے اور دو رکعتی نماز میں پہلی یا دوسری رکعت ہونے کا شک ہو تو پہلی مقرر کر لے اور اس رکعت پر قعدہ کر کے ایک رکعت اور پڑھ کر نماز پوری کرے اور سجدۂ سہو کرے
3.اگر نماز پڑھنے کے بعد شک ہوا تو اس شک کا اعتبار نہیں لیکن اگر کوئی احتیاطاً نئے سرے سے نماز پڑھ لے تو اچھا ہے تاکہ دل کا کھٹک نکل جائے اور شبہ باقی نہ رہے لیکن اگر ٹھیک یاد آ جائے تو اس کے مطابق عمل کرے پس اگر تشہد سے فارغ ہونے کو بعد سلام سے پہلے یا سلام پھیرنے کے بعد شک ہوا تو نماز کے جواز کا حکم دیا جائے گا اور اگر سلام پھیرنے سے پہلے یا سلام پھیرنے کے بعد نماز توڑنے والا کوئی فعل سرزد ہونے سے پہلے یقین ہو گیا کہ مثلاً تین ہی رکعتیں ہوئی ہیں تو کھڑے ہو کر ایک رکعت اور پڑھ لے اور سجدۂ سہو کر لے 4.اگر وتر کی نماز میں حالت قیام میں یہ شک ہوا کہ یہ دوسری رکعت ہے یا تیسری اور کسی طرف گمان غالب نہیں تو اس رکعت میں دعائے قنوت پڑھے اور رکعت پوری کر کے قعدہ کرے پھر کھڑا ہو کر ایک رکعت اور پڑھے اور اس میں بھی دعائے قنوت پڑھے اور اخیر میں سجدۂ سہو کر لے 5.نماز کے اندر شک ہوا کہ مسافر ہے یا مقیم تو چار رکعتیں پڑھے اور اس کو احتیاطاً دوسری رکعت پر قعدہ کرنا ضروری ہے ورنہ نماز نہ ہو گی
6. امام کو دوسری رکعت کا سجدہ کرنے کے بعد شک ہوا کہ پہلی رکعت ہے یا دوسری یا یہ شک ہوا کہ تیسری ہے یا چوتھی تو اپنے مقتدیوں کی طرف گوشہ چشم سے دیکھ لے اور اس پر اعتماد کر لے پس اگر وہ کھڑے ہو جائیں تو یہ بھی کھڑا ہو جائے اور بیٹھے ہوں تو یہ بھی بیٹھا رہے اور اس پر سجدہ سہو واجب نہیں جبکہ شک باقی نہ رہے 7.اگر کسی کو شک ہوا کہ نماز پڑھی ہے یا نہیں ، اگر وقت باقی ہے تو اس نماز کا اعادہ واجب ہے اور اگر وقت نکل گیا تو پھر کچھ واجب نہیں اگر یقین ہو جائے تو قضا کرے