1.اگر کسی شخص کی کچھ نمازیں اور روزے قضا ہو گئے اور ان کو قضا کرنے کی مرتے وقت تک نوبت نہ آئی تو اس کو مرتے وقت ان قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ دینے کی وصیت کرنا واجب ہے اس کی وصیت نہ کرنے پر گنہگار ہو گا
2.قضا نمازوں اور روزوں وغیرہ کے فدیہ کی وصیت میت کے ترکے کے ایک تہائی مال میں جاری ہو گی، خواہ وصیت زیادہ کی ہو
3.ہر نماز کا فدیہ صدقۂ فطر کی مقدار یعنی نصف صاع ( پونے دو سیر) گیہوں یا ایک صاع جو یا دونوں میں سے ایک کی قیمت دی جائے ، ہر وتر نماز اور ہر روزے کے لئے بھی اس قدر فدیہ دیا جائے
4.اگر میت نے کوئی ترکہ نہ چھوڑا یا اس نے کچھ وصیت نہیں کی تو اس کے وارث پر کوئی چیز واجب نہیں ہے لیکن اگر وارث اپنی طرف سے اپنے مال میں سے تقسیم کے بعد یا اپنے حصہ میں سے احسان کے طور پر ادا کرنا چاہے تو جائز ہے اور اگر وصیت کی لیکن اس کا تہائی حصہ قضا نمازوں اور روزوں کے فدیہ کے لئے کافی نہیں ہے تو جس قدر ادا ہو سکتا ہے اس قدر ایک تہائی میں سے دیا جائے اور باقی کے لئے وارث بطور احسان ادا کر دے
5.بہت سے یا کل نمازوں اور روزوں کا فدیہ ایک ہی فقیر کو دے دینا جائز ہے لیکن قسم و ظہار وغیرہ کے روزوں کا فدیہ ایک فقیر کو ایک دن میں ایک سے زیادہ کا دینا جائز نہیں ہے
6.مرض الموت میں کسی شخص کو اپنی نمازوں کا فدیہ دینا جائز نہیں کیونکہ جب تک اشارہ سے نماز پڑھ سکتا ہے نماز پڑھنی چاہئے اور جب اس سے بھی عاجز ہو جائے تو اس زمانے کی نماز معاف ہے پس اگر اس کے ذمے قضائیں رہ گئیں تو اس کے لئے وصیت ہی کرنی چاہئے لیکن بہت بڑھاپا آ جانے اور روزہ رکھنے سے عاجز ہو جانے کے زمانے کے روزوں کا فدیہ اپنی زندگی میں ادا کرنا جائز ہے اس کے علاوہ اور کسی کو روزوں کا فدیہ اپنی زندگی میں ادا کرنا جائز نہیں
7.بعض ناواقف لوگ نمازوں اور روزوں کے فدیے میں سب کے بدلہ میں ایک قرآن مجید دے دیتے ہیں یا کسی فقیر کو وہ نقد یا غلہ زبانی دے کر اپنے ذمے قرض کر لیتے ہیں اور اس قرض کے بدلے میں ایک قرآن مجید فقیر کو دے دیتے ہیں یہ محض بےاصل بات ہے اس طرح کل فدیہ ادا نہیں ہو گا بلکہ بازار کے حصاب سے جس قیمت ( ہدیہ) کا قرآن مجید اس نے دیا ہے اسی قدر ادا ہو گا اور بھی بہت سے غلط طریقے رائج ہیں ، ان سب سے بچنا چاہئے
8.نماز و روزہ بدنی عبادت ہے اس میں نیابت جاری نہیں ہوتی یعنی کسی دوسرے کے ادا کرنے سے اس کی ذمہ سے وہ فرض ادا نہیں ہو سکتا خواہ وصیت بھی کی ہو بخلاف حج کے کہ یہ بدنی و مالی دونوں طرح کی عبادت ہے اس لئے اس میں ایسے عجز کے وقت نیابت درست ہے جو موت تک دائمی ہو، زکوة محض مالی عبادت ہے اس میں حالت عجز میں نیابت صحیح ہے ورنہ نہیں