قضا نمازوں میں ترتیب کا حکم
1.صاحبِ ترتیب کے لئے قضا نمازوں میں قضا و وقتی نماز میں ترتیب واجب ہے اور اسی طرح فرض اور وتر میں ترتیب واجب ہے پس اس کو چاہئے کہ پہلے قضا نمازوں کو ترتیب سے پڑھے یعنی جو سب سے پہلے قضا ہوئی ہے اس کو پہلے پڑھے پھر اس کے بعد والی پڑھے اسی ترتیب سے سب کو قضا کرے، وتروں کو بھی فجر کے فرضوں سے پہلے قضا کرے اگر کسی کی وتر کی نماز قضا ہو گئی اور اس کے سوا اور کوئی قضا نماز اس کو ذمہ نہیں ہے تو اس کو پہلے وتر کی قضا پڑھنی چاہئے اس کے بعد فجر کی نماز ادا کرے اگر وتر کی قضا یاد ہو اور وقت میں گنجائش ہوتے ہوئے پہلی فجر کی نماز پڑھ لی تو یہ درست نہیں ہوئی، اب پہلے وتر کی قضا پڑھے پھر فجر کی نماز دوبارہ پڑھے، اور وقتی نماز ان سب کے بعد میں پڑھے، اگر کسی نے فجر کی نماز پڑھی اور اس کو یاد تھا کہ وتر نہیں پڑھی تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کی فجر کی نماز فاسد ہو جائے گی لیکن نفل و سنت کے لئے یہ حکم نہیں ہے 2.صاحب ترتیب وہ ہے جس کے ذمہ کوئی قضا نماز نہ ہو یا پانچ نمازیں یا اس سے کم اس کے ذمہ ہوں خواہ وہ پانچ نمازیں نئی ہوں یا پرانی یا دونوں طرح کی ہوں خواہ مسلسل ہوں یا متفرق، اگر کسی کے ذمے چھ یا زیادہ قضا نمازیں ہو جائیں تو وہ شخص صاحب ترتیب نہیں رہتا اس لئے اس کو ترتیب سے پڑھنا واجب نہیں ہے اس کو اختیار ہے جس نماز کو چاہے پہلے پڑھے جس کو چاہے بعد میں پڑھے ترتیب ساکت ہونے کی صورتیں ترتیب تین صورتوں میں ساکت ہو جاتی ہے اول: تنگیِ وقت اس کی چند صورتیں یہ ہیں 1.تنگیِ وقت کی وجہ سے قضا اور وقتی فرض کے درمیان ترتیب ساکت ہو جاتی ہے لیکن وقت کی تنگی قضا نمازوں کے درمیان ترتیب کو ساکت نہیں کرتی پس اگر اتنا وقت ہو کہ صرف ایک نماز پڑھ سکتا ہے تو وقتی نماز پڑھ لے اس کے بعد قضا نمازیں پڑھے اگر اس نے قضا نماز پڑھی اور وقتی نماز کو قضا کر دیا تو وہ قضا نماز جائز ہو جائے گی، لیکن وقتی نماز کو قضا کر دینے کی وجہ سے گنہگار ہو گا 2.اگر وقت اتنا تھوڑا ہو کہ وقتی اور قضا نماز دونوں کو سنن و مستحبات کی رعایت کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا اور سنن و مستحبات ترک کر کے دونوں نمازیں پڑھ سکتا ہے تب بھی اس پر ترتیب فرض ہے 3.ترتیب ساکت ہونے کے لئے وقت کی تنگی کا اعتبار نماز کے شروع کرتے وقت ہے 4.تنگیِ وقت کی وجہ سے ترتیب ساکت ہونے کے لئے اصل وقت کی تنگی کا اعتبار ہے مستحب وقت کا نہیں ، لیکن عصر کے وقت میں امام ابوحنیفہ و امام ابویوسف کے نزدیک اصل وقت کا اعتبار ہے اور امام محمد کے نزدیک مستحب وقت کا اعتبار ہے 5.وقت تنگ ہونے میں نماز پڑھنے والے کے گمان کا اعتبار نہیں بلکہ حقیقت میں تنگ ہونے سے ترتیب ساکت ہو گی 6.اگر قضا نمازیں ایک سے زیادہ ہوں اور وقت میں اتنی گنجائش نہ ہو کہ سب قضا نمازوں اور وقتی نماز کو ترتیب سے پڑھ سکے بلکہ صرف اتنی گنجائش ہو کہ وقتی نماز سے پہلے بعض قضا نمازیں پڑھ سکے تو اس میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اس سے ترتیب ساکت ہے اور اس کو وقتی نماز پہلے پڑھ لینا جائز ہے اور بعض کے نزدیک جس قدر نمازوں کی ترتیب سے پڑھنے کی گنجائش ہے ان میں اور وقتی نماز میں ترتیب واجب ہے یعنی جب تک ان بعض نمازوں کو نہ پڑھ لے وقتی نماز جائز نہ ہو گی بعض نے اس کو صحیح کہا اور ترجیع دی ہے دوم: نسیان اس کی چند صورتیں یہ ہیں 1.قضا نماز کے بھولنے سے ترتیب ساکت ہو جاتی ہے جب تک یاد نہ آئے ترتیب لازم نہ ہو گی اور یاد آنے پر ترتیب لازم ہو جائے گی 2.اگر وقتی نماز ادا کرنے کے بعد بھولی ہوئی قضا نماز یاد آئے تو وقتی نماز جائز ہو گی لیکن اگر سلام پھیرنے سے پہلے پہلے یاد آئی اور وقت میں گنجائش ہے اب اس پر ترتیب لازم ہو جائے گی اور وقتی نماز فاسد ہو جائے گی، پس پہلے قضا نمازیں ترتیب سے پڑھ لے پھر وقتی نماز ادا کرے، اگر وقت میں کل قضا نمازوں کی گنجائش نہیں ہے بلکہ کچھ کی گنجائش ہے تو جتنی گنجائش ہے اتنی قضا نمازیں پہلے پڑھ لے پھر وقتی نماز پڑھے اور اگر کسی قضا کی گنجائش نہیں ہے تو وقتی نماز کو نہ توڑے بلکہ پورا کر لے اور قضا نمازیں بعد میں پڑھے یہ حکم منفرد کا ہے اگر امام کو مثلاً ظہر کی نماز میں یاد آئے کہ اس پر فجر کی قضا باقی ہے تو اس کو چاہئے کہ سلام پھیر دے اور پہلے فجر کی قضا پڑھے پھر ظہر ادا کرے اور اگر مقتدی کو یہ صورت پیش آئے تو امام کے ساتھ نماز پوری کر لے تاکہ جماعت کا ثواب مل جائے یہ اس کے نفل ہو جائیں گے اس کے بعد پہلے فجر کی قضا پڑھے پھر ظہر کی وقتی نماز اکیلا پڑھے 3.کوئی قضا نماز ذمہ نہ ہونے کا ظن معتبر بھی ترتیب ساکت کرنے میں نسیان کے حکم میں ہے اور اسی طرح بعض کے نزدیک ترتیب کی فرضیت سے ناواقف ہونا بھی بھولنے کی مانند ہے اور بعض کے نزدیک جہالت عذر نہیں ہے لیکن پہلا قول صحیح ہے سوم: بہت سے قضا نمازوں کا جمع ہونا 1.جب بہت سے نمازیں قضا ہو جائیں تو ترتیب ساکت ہو جاتی ہے ، بہت سی نمازوں سے مراد چھ یا زیادہ نمازیں ہیں یعنی چھ یا زیادہ نمازیں جمع ہو جائیں خواہ وہ نئی ہوں یا پرانی یا دونوں طرح کی ہوں ، متفرق ہوں یا متصل، حقیقتاً قضا ہوں یا حکماً، پس جب چھٹی نماز کا وقت نکل کر چھ نمازیں جمع ہو جائیں تو قضا نمازوں میں نیز قضاؤں اور وقتی نماز میں ترتیب واجب نہیں رہتی لیکن وتر کی نماز کا شمار ان چھ نمازوں میں نہیں ہو گا بلکہ اس کو نماز عشا کے ساتھ شمار کر کے دونوں کو ایک نماز شمار کیا جائے گا اور عشا اور وتر میں ترتیب بھی ساکت نہیں ہوتی 2.حکماً قضا ہونے کی مثال یہ ہے کہ کسی صاحبِ ترتیب شخص کی کوئی نماز قضا ہو گی خواہ وہ نماز وتر ہی ہو اور اس قضا کے یاد ہوتے ہوئے وہ وقتی نمازیں پڑھتا رہا یہاں تک کہ اس نے پانچ یا زیادہ وقت کی نمازیں پڑھ لی اور اس عرصہ میں اس قضا نماز کو یاد ہونے اور وقت میں گنجائش ہونے کے باوجود نہیں پڑھا تو وہ ایک نماز حقیقتاً اور حکماً قضا ہے اور یہ پانچ نمازیں صرف حکماً قضا ہیں کیونکہ جب تک اس نے ترتیب کے مطابق قضا نماز پہلے ادا نہیں کی تو وہ وقتی نمازیں فاسد ہوتی رہیں لیکن ان کا فساد اس ایک حقیقتاً قضا نماز کو ان حکمی قضا نمازوں کے کثیر یعنی پانچ ہونے سے پہلے پہلے ادا کرنے پر ترتیب واجب ہونے کی وجہ سے موقوف ہے پس جب یہ سب مل کر چھ نمازیں قضا ہو گئیں تو ترتیب ساکت ہو گئی اب ان کا فساد جو ترتیب تک موقوف تھا ترتیب ساکت ہونے سے جاتا رہا اور وہ پانچوں حکمی قضا نمازیں صحیح ہو گئیں اب اس پر صرف وہی ایک نماز جو حقیقتاً قضا ہوئی تھی باقی ہے لیکن اگر اس نے پانچ نمازیں حکماً قضا ہونے سے پہلے یعنی دو یا تین یا چار وقت کے بعد وہ حقیقی قضا پڑھ لی تو یہ سب پڑھی ہوئی وقتی نمازیں فرض کے بجائے نہیں رہی بلکہ نفل ہو گئیں لہذا ان سب نمازوں کی قضا واجب ہے 3.جب چھ یا زیادہ قضا نمازیں جمع ہونے کی وجہ سے ترتیب ساکت ہو گئیں تو اصح یہ ہے کہ اب ترتیب عود نہیں کرتی پس اگر کسی شخص نے ان قضا نمازوں میں سے کچھ نمازیں قضا کر لیں یہاں تک کہ اب چھ سے کم نمازیں اس کے ذمے باقی رہ گئیں تو اصح یہ ہے کہ ترتیب عود نہیں کرے گی اس لئے اب ان کو بھی وہ بے ترتیب ادا کر سکتا ہے ، یعنی جس کو چاہے پہلے پڑھ سکتا ہے اور ان کے یاد ہوتے ہوئے پہلے وقتی نماز پڑھ سکتا ہے یہی معتمد ہے اور اسی پر فتویٰ ہے 4.اگر کسی کے ذمے چھ یا زیادہ نمازیں قضا تھیں اور اس نے سب کو ادا کر لیا اب نئی یا پرانی کوئی قضا نماز اس کے ذمہ نہیں رہی تو اب وہ بالاتفاق نئے سرے سے صاحبِ ترتیب ہو جائے گا پس ایک شخص زندگی میں کئی مرتبہ صاحبِ ترتیب ہو سکتا ہے اور کئی دفعہ اس سے ترتیب ساکت ہو سکتی ہے
Top