1.ماہ رمضان المبارک میں نمازِ عشا کے بعد بیس رکعت تراویح پڑھنا مردوں اور عورتوں کے لئے بالاجماع سنتِ مؤکدہ علی العین ہے اگر کوئی شخص ترک کرے گا تو وہ ترکِ سنت کا گناہگار اور مکروہ کا مرتکب ہو گا
2.یہ نماز دس سلاموں کو ساتھ مسنون ہے ، یعنی دو دو رکعت کی نیت کرے اور ہر دو گانے پر سلام پھیرے اور ہر چار رکعت کے بعد بیٹھ کر آرام کرے، اس کو ترویحہ کہتے ہیں ، اس طرح پانچ ترویحے ہوتے ہیں پانچ سے زیادہ ترویحے کرنا مکروہ ہے
3.اس کا وقت عشا کے بعد سے شروع ہو کر طلوعِ صبح صادق سے پہلے تک ہے خواہ وتروں سے پہلے پڑھے یا بعد میں دونوں طرح جائز ہے لیکن وتروں سے پہلے پڑھنا افضل ہے اور تراویح کی نماز عشا کی نماز کی تابع ہے پس جو تراویح نماز عشا سے پہلے ادا کی اس کا شمار تراویح میں نہیں ہو گا اس کا اعادہ کیا جائے اور اگر نماز عشا اور تراویح و وتر پڑھنے کے بعد ظاہر ہوا کہ عشا کی نماز وضو کے بغیر پڑھی اور تراویح و وتر وضو کے ساتھ پڑھے ہیں یا کوئی اور وجہ معلوم ہوئی جس سے صرف عشا کی نماز فاسد ہوئی تو عشا کے ساتھ تراویح کا بھی اعادہ کرے وتروں کا اعادہ نہ کرے کیونکہ وتر اپنے وقت میں عشا کے تابع نہیں اور عشا کی نماز کا اس پر مقدم کرنا ترتیب کی وجہ سے واجب ہے اور بھولنے وغیرہ سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے
4.نماز تراویح میں تہائی رات یا آدھی رات تک تاخیر کرنا مستحب ہے اور آدھی رات کے بعد بھی صحیح یہ ہے کہ مکروہ نہیں بلکہ مستحب و افضل ہے لیکن اگر فوت ہونے کا خوف ہو تو احسن یہ ہے کہ تاخیر نہ کرے
5.تراویح میں جماعت سنتِ کفایہ ہے یعنی اگر محلہ کی مسجد میں نماز تراویح جماعت سے پڑھی گئی اور کوئی شخص گھر میں اکیلا نماز پڑھے تو گناہگار نہ ہو گا لیکن اگر تمام محلے والے نمازِ تراویح جماعت سے نہ پڑھیں تو سب ترک سنت کی وجہ سے گناہگار ہونگے اور اگر کچھ لوگوں نے جماعت سےنماز پڑھ لی تو ان لوگوں نے جماعت کی فضیلت پالی لیکن مسجد کی فضیلت نہیں پائی
6.ہر چار رکعت کے بعد اتنی دیر تک بیٹھنا مستحب ہے جتنی دیر میں چار رکعتین پڑھی گئیں ہیں یا پڑھی جائیں اس کو ترویحہ کہتے ہیں ، اگر اتنی دیر تک بیٹھنے میں لوگوں کو تکلیف ہو اور جماعت کم ہو جانے کا خوف ہو تو اس سے کم بیٹھے، اس بیٹھنے کے وقت میں اس کو اختیار ہے کہ چاہے تنہا نوافل پڑھے چاہے قرآن مجید آہستہ آہستہ پڑھے یا تسبیح وغیرہ پڑھے یا چپ بیٹھا رہے ، اس وقفے میں جماعت سے نوافل پڑھنا مکروہ ہے بعض فقہ نے یہ تسبیح تین بار پڑھنے کے لئے لکھا ہے
سُبحَانَ ذِی المُلکِ وَ المَلَکُوتِ سُبحَانَ ذِی العِزَّةِ وَ العَظمَتِ وَ القَدرَةِ وَالکِبرِیَائِ وَ الجَبَرُوتِ ط سُبحَانَ المَلکِ الحَیِّ الَّذِی لَا یَنَامُ وَلَا یُمَوتَ . سَبَّوح’‘ قُدُّوسٍ رَبَّنَا وَ رَبُّ المَلَائِکَتِ وَالرُّوحُ ط لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ نَستَغفِرُ اللّٰہَ وَ نَسئَلُکَ الجَنَّتَ وَ نَعُوذُبِکَ مِنَ النَّارِ ط
7.اگر عذر وغیرہ کسی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو اس کو بھی تراویح کا پڑھنا سنت ہے اگر نہیں پڑھے گا تو سنت کے ترک کا گناہ ہو گا
8.گھر یا مسجد میں تراویح پڑھانے کے لئے کسی شخص کو اجرت پر مقرر کرنا مکروہ ہے ، اگر حافظ کے دل میں لینے کا خیال نہیں تھا اور لوگوں نے حافظ کی خدمت کے طور پر دے دیا تو اس کا لینا درست ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، جو کچھ رواج اور عرف کے طور پر دیتے ہیں اور حافظ لینے کے خیال سے پڑھتا ہے اگرچہ زبان سے نہیں کہتا تو یہ بھی درست نہیں ہے
۹.ایک مسجد میں ایک ہی گروہ کے لئے دو مرتبہ تراویح کی جماعت مکروہ ہے اگر ایک امام دو مسجدوں میں پوری پوری تراویح پڑھاتا ہے تو یہ ناجائز ہے اور اگر مقتدی دو مسجدوں میں پوری پوری تراویح پڑھے تو مضائقہ نہیں لیکن اس کو وتر ایک ہی جگہ پڑھنے چاہئے ، اگر کسی شخص نے گھر میں تنہا نماز عشا و تراویح و وتر پڑھے پھر مسجد میں آ کر امامت کی نیت سے دوسرے لوگوں کے تراویح پڑھائی تو امام کے لئے مکروہ ہے اور جماعت کے لئے مکروہ نہیں
10.افضل یہ ہے کہ سب تراویح ایک ہی امام پڑھائے اور اگر دو امام پڑھائیں تو مستحب یہ ہے کہ ہر ایک امام ترویحہ پورا کر کے الگ ہو مثلاً ایک امام آٹھ رکعت اور دوسرا امام بارہ رکعت پڑھائے اور اگر دس دس رکعت ہر امام نے پڑھائی تو یہ مستحسن نہیں ہے ، اگر عشا کے فرض اور وتر ایک شخص پڑھائے اور تراویح دوسرا شخص پڑھائے تو یہ بھی جائز ہے اسی طرح اگر فرض ایک شخص پڑھائے اور وتر دوسرا شخص پڑھائے تو یہ بھی درست ہے
11.نابالغ لڑکے کی امامت بالغوں کے لئے تراویح و نفلوں میں بھی جائز نہیں اور اگر وہ نابالغوں کی امامت کرے تو مضائقہ نہیں
12.اگر کسی روز کی کل یا بعض تراویح فوت ہو جائیں تو سنتوں کی طرح ان کو بھی قضا نہ کریں ، اگر اسی وقت کے اندر وتر پڑھنے کے بعد یاد آیا کہ دو رکعت رہ گئی ہو تو پڑھ لیں اور ان کو جماعت سے پڑھ لینا ہی اظہر ہے
13.اگر سب لوگوں نے عشا کے فرض جماعت سے نہیں پڑھے تو ان کو تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ تراویح کی جماعت فرض نماز کی جماعت کے تابع ہے لیکن اگر لوگ عشا کی نماز جماعت سے پڑھ کر تراویح جماعت سے پڑھ رہے ہوں تو ایسے شخص کو جس نے عشا کی نماز علیحدہ پڑھی ہو ان لوگوں کے ساتھ شریک ہو کر تراویح کا جماعت سے پڑھنا درست ہے پس اگر کوئی شخص ایسے وقت مسجد میں پہنچے کہ نمازِ عشا کی جماعت ہو چکی ہو بلکہ تراویح کی بھی کچھ رکعتیں ہو چکی ہوں تو اس کو چاہئے کہ پہلے عشا کی فرض نماز پڑھ کر دو رکعت نماز سنت پڑھے پھر نماز تراویح میں جماعت کے ساتھ شریک ہو جائے اور وتر بھی جماعت کے ساتھ پڑھے اور اس درمیان میں تراویح کی جتنی رکعتیں ہو چکی ہیں وہ ان کو نماز وتر کے بعد پڑھ لے
14.اگر کسی شخص نے عشا کی فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھی اور تراویح امام کے ساتھ نہ پڑھی یا کچھ تراویح امام کے ساتھ پڑھی تو اس کو وتر امام کے ساتھ جماعت سے پڑھنا جائز ہے لیکن اگر فرض و تراویح جماعت سے نہ پڑھے ہوں تو وتر جماعت سے نہ پڑھے اور اگر سب نے تراویح جماعت سے نہ پڑھی ہو تو وہ سب لوگ وتر جماعت سے نہ پڑھیں
15.وتر کی نماز جماعت سے ادا کرنا صرف رمضان المبارک میں مشروع ہے ، رمضان المبارک کے علاوہ اور دنوں میں نمازِ وتر کا جماعت سے ادا کرنے کا حکم نفلوں کی طرح ہے ، اور رمضان المبارک میں نمازِ وتر کا جماعت سے ادا کرنا گھر میں اکیلے ادا کرنے سے افضل ہے
16.نمازِ فرض یا وتر یا نفل پڑھنے والے کے پیچھے نمازِ تراویح کی اقتدا صحیح نہیں ہے
17.افضل یہ ہے کہ تراویح کے ہر دو گانے پر نئی نیت کرے اور تراویح کی نیت میں مطلق نیت نفل کافی ہے لیکن افضل یہ ہے کہ سنت و تراویح کا تعین بھی کر لیا کرے
18.ماہ رمضان المبارک میں تراویح میں ایک مرتبہ قرآن کا ترتیب وار پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے لوگوں کی کاہلی و سستی سے اس کو ترک نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر لوگ اس قدر سست ہوں اور یہ اندیشہ ہو کہ اگر پورا قرآن مجید پڑھا جائے گا تو لوگ نماز میں نہیں آئیں گے اور جماعت ٹوٹ جائے گی یا ان کو بہت ناگوار ہو گا تو بہتر یہ ہے کہ جس قدر پڑھنا لوگوں کو گراں نہ گزرے اسی قدر پڑھا جائے یا سورة الم ترکیف سے سورة الناس تک کی دس سورتوں میں سے ایک سورت ہر رکعت میں پڑھیں ، دو دفعہ ایسا کرنے سے بیس رکعتیں ہو جائیں گی یا اور جو سورتیں چاہے پڑھیں ، جماعت کی سستی کی وجہ سے طمانیت و تعدیل ارکان ترک نہ کرے قرأت میں جلدی نہ کرے تعوذ و تسمیع پڑھے اور قعدے میں التحیات کی بعد درود شریف ضرور پڑھ لیا کرے اگرچہ صرف اللھم صلی علی محمد تک ہی پڑھ لے اور تراویح بھی ترک نہ کرے، تراویح میں ماہ مبارک میں دو مرتبہ ختم کرنا افضل ہے اور تین مرتبہ ختم کرنا زیادہ افضل ہے لیکن یہ فضیلت اس وقت ہے جب کہ مقتدیوں کو دشواری نہ ہو
1۹.ایک رات میں پورے قرآن مجید کا پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ لوگ سب ذوق و شوق والے ہوں ورنہ مکروہ ہے بعض اکابر امت سے ایک شب میں ختم قرآن کرنا ثابت ہے لیکن شبینہ متعارفہ اس حکم میں داخل نہیں ہے کیونکہ اس میں بہت سے مکروہات و مفاسد کا ارتکاب ہوتا ہے اس لئے یہ ناجائز ہے
20.افضل یہ ہے کہ تراویح کے سب دوگانوں میں قرأت برابر پڑھے اور اگر کم و بیش پڑھے تو مضائقہ نہیں لیکن اور نمازوں کی طرح اس میں بھی دوسری رکعت کی قرأت کو پہلی رکعت سے بڑھانا مکروہ ہے معمولی زیادتی کا مضائقہ نہیں
21.تراویح کا بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے لیکن مستحب نہیں ہے بلکہ مکروہِ تنزیہی ہے اور دیگر نوافل کی طرح بلا عذر بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑا ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ہوتا ہے ، اگر امام عذر کی وجہ سے بیٹھ کر تراویح پڑھے اور مقتدی کھڑے ہوں تو ان کی نماز صحیح ہو گی اور اس صورت میں جماعت کے لئے بھی بعض فقہا نے بیٹھ کر پڑھنا مستحب کہا ہے تاکہ امام کی مخالفت کی صورت نہ رہے
22.اگر چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھیں اور دوسری رکعت پر قعدہ نہ کیا تو استحساناً اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی لیکن اگر عمداً ایسا کیا تو اس نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے اور سہواً ایسا ہونے کی صورت میں سجدہ سہو واجب ہو گا اور وہ دو رکعتیں شمار ہونگی یہی صحیح اور مفتیٰ بہ ہے اور فتویٰ اس پر ہے کہ اس کو ان رکعتوں میں پڑھا ہوا قرآن مجید لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر مقتدیوں پر مشقت نہ ہو اور وہ رضامند ہوں تو اس قرأت کا لوٹانا احوط ہے اور اگر دوسری رکعت کے بعد بھی قعدہ نہ کیا اور تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا تو تیسری رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے پہلے یاد آ جانے پر لوٹ کر قعدہ کرے اور سجدہ سہو کر کے سلام پھیر دے اگر تیسری رکعت کا سجدہ کرنے کے بعد یاد آیا تو ایک رکعت اور پڑھ کر قعدہ کرے اور سجدہ سہو کر کے سلام پھیر دے پس یہ چاروں رکعتیں ایک دوگانہ شمار ہوں گی جیسا کہ اوپر بیان ہوا اور اگر دوسری رکعت کے بعد قعدہ کر کے تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہوا اور تیسری رکعت کا سجدہ کر لینے کے بعد یاد آیا اور ایک رکعت بڑھا کر چار رکعت پوری کر لیں اور سجدہ سہو بھی کر لیا تو صحیح یہ ہے کہ چار رکعت شمار ہوں گی
23.اگر تراویح میں چھ یا آٹھ یا دس رکعتیں ایک سلام سے پڑھیں اگر اس نے ہر دو گانے میں قعدہ کیا تو صحیح یہ ہے کہ جائز ہے لیکن عمداً ایسا کرنا مکروہ ہے اور ایک ہی سلام سے بیس رکعتیں ادا کرنے اور ہر دو گانے پر قعدہ کرنے کا بھی یہی حکم ہے کہ سب تراویح ادا ہو جائیں گی لیکن عمداً ایسا کرنا مکروہ ہے اور ہر دو گانے پر قعدہ نہیں کیا بلکہ صرف ایک آخر میں قعدہ کیا تو استحساناً ایک دوگانہ شمار ہو گا یہ حکم تراویح کے لئے ہے عام نوافل میں اس صورت میں تمام نماز فاسد ہو جائے گی،
24.اگر کسی وجہ سے تمام نماز تراویح یا اس کا کوئی دوگانہ فاسد ہو جائے تو اس میں پڑھا ہوا قرآن مجید دوبارہ پڑھا جائے تاکہ تراویح میں ختم قرآن ناقص نہ رہے
25.اگر تراویح میں قرأت میں غلطی ہوئی یا کوئی سورت یا آیت چھوٹ گئی تو معلوم ہونے پر صحیح کر کے پڑھے اور صرف چھوٹی ہوئی آیت یا سورت کو پڑھ لے تو کافی ہے اور اگر اس کے بعد کا قرآن مجید دوبارہ پڑھ لے تو بہتر ہے تاکہ ختم ترتیب کے موافق ہو
26.اگر مقتدی بلا عذر بیٹھ کر تراویح پڑھے اور جب امام رکوع میں جانے لگے تو یہ کھڑا ہو جائے تو یہ مکروہِ تحریمی ہے اگر بڑھاپے یا بیماری وغیرہ کے عذر کی وجہ سے ایسا کرے تو مکروہ نہیں ہے اس طرح بعض لوگ رکعت کے شروع میں نماز میں شریک نہیں ہوتے اور جب امام رکوع میں جانے لگتا ہے تو شریک ہو جاتے ہیں یہ بھی مکروہِ تحریمی ہے ، شروع سے نماز میں شریک ہونا چاہئے
27.اگر نیند کا غلبہ ہو تو جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا مکروہ ہے بلکہ اس کو علیحدہ ہو جانا چاہئے جب نیند دور ہو جائے اور خوب ہشیار ہو جائے تو نماز میں شامل ہو جائے
28.امام کو تراویح میں کسی سورت کے شروع میں ایک مرتبہ
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمَ ط
آواز سے پڑھنا چاہئے اس لئے کہ بسم اللّٰہ بھی قرآن مجید کی ایک آیت ہے اور ہر سورت کے شروع میں بسم اللّٰہ کا آہستہ پڑھنا مستحب ہے
2۹.امام کے لئے تراویح میں ختم قرآن ستائیسویں شب کو کرنا افضل ہے اور اس سے پہلے بھی جائز ہے مگر ترک افضل ہے اور جب بھی تراویح میں قرآن پاک ختم کر لیا جائے تو رمضان المبارک کی باقی راتوں میں تراویح نہ چھوڑے کیونکہ تراویح کا تمام ماہِ رمضان المبارک میں پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے اور اس کا ترک مکروہ تحریمی ہے
03.ختم کے وقت آخری رکعت میں الم سے مفلحون ط تک پڑھنا بہتر و مستحب ہے اور سورة اخلاص ایک ہی مرتبہ پڑھنی چاہئے اس کا تین مرتبہ پڑھنا جیسا کہ آج کل بعض لوگوں میں دستور ہے مکروہ ہے
31.تراویح کی رکعتوں کو اس لئے شمار کرنا کہ کتنی باقی رہ گئی ہیں مکروہ ہے