حضرت امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ کے ظہور سے نفحِ صور تک مندرجہ ذیل علامتیں ظاہر ہوں گی۔
1. حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو گا۔ مہدی کے معنی ہیں ہدایت پایا ہوا۔ امام مہدی موعود یعنی جن کا علاماتِ قیامت میں ذکر ہے اور قربِ قیامت میں جن کے ظہور کا وعدہ ہے ایک خاص شخص ہے جو دجال موعود( یعنی جس دجال کا امام مہدی سے پہلے ہونے کا وعدہ ہے ) کے وقت میں ظاہر ہوں گے اور دجال کے ظاہر ہونے سے پہلے وہ نصاریٰ سے جنگ کر کے فتحیاب ہوں گے، آپ کا نام محمد والد کا نام عبداللّٰہ والدہ کا نام آمنہ ہو گا آپ حضرت امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کی اولاد سے ہوں گے مدینے کے رہنے والے ہوں گے قد مائل بہ درزی، قوی الجثہ، رنگ سفید سرخی مائل چہرہ کشادہ، ناک باریک و بلند زبان میں قدرے لکنت، جب کلام کرنے میں تنگ ہوں گے تب زانو پر ہاتھ ماریں گے، آپ کا علم لدنی ہو گا، چالیس برس کی عمر میں ظاہر ہوں گے اس کے بعد سات یا آٹھ برس تک زندہ رہیں گے جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آئیں گے لوگ ان کو پہچان کر ان سے بیت کریں گے اور اپنا بادشاہ بنائیں گے اس وقت غیب سے یہ آواز آئے گی
ھَذا خَلِیفَہّ اللّٰہِ المَھدِی فَاستَمِعُو وَ اطِیعُوا " یہ اللّٰہ تعالیٰ کا خلیفہ مہدی ہے اس کی بات سنو اور اطاعت کرو"
2. اس سال ماہ رمضان میں تیرہویں تاریخ کو چاند اور ستائسویں تاریخ کوسورج گرہن ہو گا۔
3. امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ کے زمانے میں اسلام خوب پھیلے گا امام مہدی سنت نبوی پر عمل کریں گے عرب کی فوج ان کی مدد کو جمع ہو گی کعبہ کے دروازہ کے آگے جو خزانہ مدفون ہے جس کو تاج الکعبہ کہتے ہیں نکالے گے اور مسلمانوں میں تقسیم فرمائیں گے، دمشق کے قریب نصاریٰ کے لشکر جرار کے ساتھ جنگ ہو گی مسلمانوں کے تین فریق ہوں گے ایک وہ جو نصاریٰ کے خوف سے بھاگ جائیں گے ان کی توبہ کبھی قبول نہ ہو گی اور وہ حالت کفر میں مر جائیں گے ایک فریق شہید ہو جائے گا اور افضل شہدا کا مرتبہ پائے گا تیسرا فریق فتح۔پائے گا اور ہمیشہ فتنے سے امن میں رہے گا۔
4. دجال موعود ایک خاص شخص ہے یہ قوم یہود سے ہو گا اور اس کا لقب مسیح ہو گا داہنی آنکھ اندھی ہو گی اور اس میں انگور کے دانے کی مانند ناخونہ ہو گا اس کے بال حبشیوں کے بالوں کی مانند نہایت پیچیدہ ہوں گے، ایک بڑا گدھا اس کی سواری کے لئے ہو گا اور اس کے ماتھے کے عین بیچ میں کافر اس طرح لکھا ہو گا" ک ف ر" جس کو ہر ذی شعور پڑھ لے گا، اول وہ ملک شام و عراق کے درمیان ظاہر ہو کر نبوت کا دعویٰ کرے گا پھر اسفہان میں آئے گا اور ستر ہزار یہودی اس کے تابی ہوں گے وہ خدائی کا دعویٰ کرے گا اس کے ساتھ آگ ہو گی جس کو وہ دوزخ کہے گا اور ایک باغ ہو گا جس کا نام وہ بہشت رکھے گا دراصل اس کی دوزخ جنت کی تاثیر رکھتی ہو گی اور اس کی جنت دوزخ کے اثر والی ہو گی، زمین میں دائیں بائیں فساد ڈالتا پھرے گا اور بادل کی طرح پھیل جائے گا، اس سے پہلے سخت قحط ہو گا وہ عجیب عجیب کرشمے دکھائے گا، جو استدراج کے حکم میں ہوں گے، مسلمانوں کو ان کی تسبیح و تہلیل روٹی اور پانی کا کام دے گی پھر مکہ کی طرف آئے گا، لیکن فرشتوں کی حفاظت کے سبب مکہ معظمہ میں داخل نہ ہو سکے گا، پھر مدینہ منورہ کا ارادہ کرے گا اور اُحد پہاڑ کے پاس ڈیرہ لگائے گا مدینہ منورہ کے اس وقت سات دروازے ہوں گے ہر دروازے پر دو محافظ فرشتے ہوں گے اس لئے دجال اندر نہ جا سکے گا۔ پھر دمشق کی طرف روانہ ہو گا جہاں امام مہدی ہوں گے وہ امام مہدی سے مقابلہ کرے گا، امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ لشکر درست کر کے جنگ کے لئے تیار ہوں۔گے
5. اتنے میں عصر کا وقت دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی سفید منارہ پر زرد لباس پہنے ہوئے دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ دہرے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے، جب سر نیچا کریں گے تو پسینے سے قطرے ٹپکیں گے، جب سر اٹھائیں گے تو موتیوں کے دانوں کی مانند قطرے گریں گے پھر امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ سے ملاقات کریں گے اور ایک دوسرے کو امامت کے لئے کہیں گے غالباً پہلے امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ امام ہو کر نمازپڑھائیں گے تاکہ تکریم امت ہو، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام امامت فرمائیں گے، کیونکہ آپ نبی ہیں حضرت عیسی علیہ السلام دجال کے قتل کے لئے آمادہ ہوں گے آپ کے دم کی یہ تاثیر ہو گی کہ جس کافر کو وہ ہوا لگ جائے گی وہ مر جائے گا اور جہاں تک ان کی نظر جائے گی وہ ہوا بھی وہاں تک جائے گی، آپ دجال کا تعاقب کریں گے باب لُد( ملک شام کا پہاڑ یا گاؤں ) کے پاس اسے گھیر لیں گے اور نیزے سے قتل کر کے اس کا خون لوگوں کو دکھائیں گے اگر اس کے قتل میں حضرت عیسیٰ جلدی نہ کریں تو وہ کافر نمک کی طرح خود بخود پگھل جائے پھر لشکرِاسلام دجال کے لشکر کو کہ اکثر یہودی ہوں گے بکثرت قتل کرے گا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام حکم دیں گے کہ خنزیر قتل کئے جائیں اور صلیب کہ جس کو نصاریٰ پوجتے ہیں توڑ دی جائے اور کسی کافر سے جزیہ نہ لیا جائے بلکہ وہ اسلام لائے پس اس وقت تمام دنیا میں دین اسلام پھیل جائے گا کفر مٹ جائے گا خوب انصاف راج ہو گاجور وظلم دنیا سے دور ہو جائے گا۔ امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت سات یا آٹھ یا نو برس ہو گی ( باخلافِ روایات) پھر آپ دنیا سے تشریف لے جائیں گے خضرت عیسی علیہ اسلام اور مسلمان ان کے۔جنازے کی نماز پڑھ کر دفن کریں گے۔
6. اس کے بعد تمام انتظام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اختیار میں ہو گا اور دنیا اچھی حالت پر ہو گی پھر یکایک وحی الہی سے حضرت عیسی علیہ السلام لوگوں کو کوہ طور کی طرف لے جائیں گے اور قوم یاجوج ماجوج کا خروج ہو گا جو یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں، ذوالقرنین بادشاہ نے ان کے راستے کو جو دو پہاڑوں کے درہ میں تھا مستحکم بند کر دیا تھا، اخیر زمانہ میں اسوقت وہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور یہ غارت گر قوم پھیل جائے گی، کوئی ان سے مقابلہ نہ کر سکے گا آخرکار آسمانی بلا سے خود بخود مر جائیں گے پھر زمین میں خیر برکت ظاہر ہو گی لوگوں کو مال کی کچھ پرواہ نہ ہو گی ایک سجدہ کرنا دنیا و مافیا سے اچھا جانیں گے یہ خیر و برکت سات برس تک رہے گی، اس عرصہ میں خضرت عیسی علیہ السلام نکاح بھی کریں گے اور ان کی اولاد بھی ہو گی پھر دنیا سے انتقال فرمائیں گے اور آنحضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے روزہ مبارک میں دفن ہوں گے۔ اور قیامت میں وہیں سے اٹھیں گے
7. حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک شخص کو خلیفہ مقرر فرمائیں گے وہ اچھی طرح عدل کے ساتھ حکومت کرے گا لیکن شر و فساد و کفر و الحاد پھیل جائے گا اسی طرح دو تین شخص یکے بعد دیگرے حاکم ہوں گے، لیکن کفر و الحاد بڑھتا جائے گا پھر اس زمانے میں ایک مکان مشرق میں اور ایک مکان مغرب میں دھنس جائے گا جہاں منکرین تقدیر رہتے ہوں گے۔
8.انہی دنوں آسمان سے ایک دھواں نمودار ہو گا کہاس سے مومنین کو زکام سا معلوم ہو گا اور کافروں کو نہایت تکلیف ہو گی
9. انہی دنوں ماہ ذوالحجہ میں قربانی (10 ذی الحجہ)کے دن کے بعد کی رات بہت دراز ہو گی یہاں تک کہ بچے چلا اٹھے گے اور مسافر تنگ دل ہوں جائیں گے اور مویشی چرا گاہ میں جانے کے لئے بہت شور کریں گے لیکن صبح نہ ہو گی یہاں تک کہ لوگ ڈر کر کے روئیں چلائیں گے اور توبہ توبہ پکاریں گے اس رات کی درازی تین یا چار رات کے برابر ہو جائے گی۔
10. پھر قرصِ آفتاب تھوڑے نور کے ساتھ جیسا کہ گہن کے وقت ہوتا ہے مغرب کی جانب سے طلوع کرے گا اور اتنا بلند ہو کر جتنا کہ چاشت کے وقت ہوتا ہے پھر غروب ہو جائے گا اور حسب عادت مشرق سے طلوع کرے گا اس کے بعد کسی کی توبہ قبول نہ ہو گی۔
11. اس کے دوسرے روز مکہ کا پہاڑ صفا (نام) زلزلہ آ کر شک ہو جائے گا اور ایک جانور جس کی عجیب صورت ہو گی باہر آئے گا اور لوگوں سے کلام کرے گا اس کو دابتہ الارض کہتے ہیں، اس کے ایک ہاتھ میں عصائے موسیٰ اور دوسرے میں مُہر سلیمانی ہو گی، عصا موسیٰ سے ہر مسلمان کی پیشانی پر ایک نورانی خط بنائے گا اور مہر سے ہر کافر کی پیشانی پر ایک سخت سیاہ دھبہ لگائے گا، اس وقت تمام مسلمان و کافر کھلم کھلا پہچانے جائیں گے اور یہ علامت کبھی نہ بدلے گی، کافر پھر ہرگز ایمان نہ لائے گا اور مسلمان ہمیشہ ایمان پر رہے گا، اس کے سو برس بعد قیامت آئے گی
12. پس دابتہ الارض کے نکلنے کے کچھ عرصہ بعد یعنی جب قیامت میں چالیس برس رہ جائیں گے تو شام کی طرف سے ایک خوشبودار ٹھنڈی ہوا( ہوائے سرد)چلے گی جو بغلوں کے نیچے سے گزرے گی جس کے اثر سے کوئی اہل ایمان اور اہل خیر زمیں پر نہ رہے گا سب مر جائیں گے حتیٰ کہ اگر کوئی مومن پہاڑ کے غار میں چھپا ہو گا تو یہ ہوا پہاڑ کے غار میں پہنچ کر اس کو مارے گی پھر سب کافر ہی کافر رہ جائیں گے
13. پھر حبشہ کے کفار کا غلبہ ہو گا وہ خانہ کعبہ کو گرا دیں گے اور اس کے نیچے سے خزانے نکالیں گے ظلم و فساد پھیلے گا جانوروں کی طرح لوگ کوچہ و بازار میں ماں بہن سے جماع کریں گے، قران کاغذوں سے اٹھ جائے گا شہر اجڑ جائیں گے، قحط و وبا کا ظہور ہو گا اس کے بعد ملک شام میں کچھ ارزانی ہو گی اور کچھ امن ہو گا دوسری جگہ کے لوگ وہاں آئیں گے جس سے وہاں لوگوں کی کثرت ہو گی۔
14. کچھ مدت کے بعد جنوب کی طرف سے ایک آگ نمودار ہو گی اور لوگوں کو گھیر کر ملک شام کی طرف لائے گی جہاں مرنے کے بعد حشر ہو گا۔
15. اس کے بعد پانچ برس تک پھر لوگوں کو خوب عیش و آرام میسر ہو گا۔ لوگ شیطان کے بہکانے سے بتوں کی عبادت کریں گے، ان کو روزی کی فراخی حاصل ہو گی اور زمین پر کوئی اللّٰہ اللّٰہ کہنے والا نہ باقی رہے گا تب صور پھونکا جائے گا اور قائم ہو جائے گی۔ لوگ اس وقت عیش و آرام میں ہوں گے اور مختلف کاموں میں مصروف ہوں گے کہ یکایک جمعہ کے روز جبکہ محرم کا عشرہ ہو گا علیٰ الصباح آواز آئے گی لوگ حیران ہوں گے کہ یہ کیا ہے وہ آواز آہستہ آہستہ بلند ہوتی جائے گی یہاں تک کہ کڑک اور رعد کے برابر ہو گی تب لوگ مرنے شروع ہوں گے۔ صور ایک چیز بگل کی مانند ہے حضرت اسرافیل علیہ السلام اس کو منھ سے بجائیں گے اس کی آواز کی شدت سے ہر چیز فنا ہو جائے گی جاندار مر جائیں گے درخت اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے، آسمان کے تارے چاند سورج ٹوٹ کر گر پڑیں گے، آسمان پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا زمین معدوم ہو جائے گی۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ فنائے کلی سے یہ آٹھ چیزیں مستثنیٰ ہیں ان کو فنا نہ ہو گی
1. عرش،
2. کرسی،
3. لوح،
4. قلم،
5. بہشت،
6. دوزخ،
7. صور،
8. ارواح،
لیکن ارواح پر ایک قسم کی بیہوشی طاری ہو گی اور بعض علماء فرماتے ہیں سوائے اللّٰہ تعالیٰ کے ہر چیز فنا ہو جائے گی اور ان آٹھ مذکورہ چیزوں میں بھی ایک دم بھر کے لئے فنا آئے گی، اس وقت اللّٰہ تعالیٰ فرمائے گا
لِمَنِ المُلکُ الیَوم "آج کس کا ملک ہے "
جب کوئی جواب نہ دے گا تو اللّٰہ تعالیٰ آپ ہی فرمائے گا
ِللّٰہِ الَواحِدِ القَھَّارِ "ملک اللّٰہ واحد و قہار ہی کا ہے۔"
یہ پہلے نفخے کا بیان تھا۔ چالیس سال کے بعد پھر صور پھونکا جائے گا اس سے ہر چیز دوبارہ ہو جائے گی، اس کی کیفیت ولبعث بعد الموت میں درج ہے۔