1.عشا کی نماز کے بعد تین رکعت نماز وتر پڑھنا امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمتہ اللّٰہ کے نزدیک واجب ہے یہی امام صاحب کا آخری قول ہے اور یہی صحیح ہے ، وتر کے واجب ہونے کا منکر کافر نہیں ہوتا لیکن اصل نماز وتر کا منکر کافر ہونا چاہئے
2.اس کے پڑھنے کی تاکید فرض نمازوں کے برابر ہے قصداً یا سہواً چھوٹ جائے تو اس کی قضا واجب ہے اور بلا عذر قصداً چھوڑنا بڑا گناہ ہے اور اس کا تارک بھی فرض نمازوں کے تارک کی طرح فاسق و گناہگار ہوتا ہے
3.وتر کی نماز ہر زمانے میں یعنی خواہ رمضان المبارک ہو یا کوئی اور دن ہوں جہری نمازوں میں سے ہے اس لئے اگر وتر جماعت سے ادا کئے جائیں تو نمازِ وتر کی تینوں رکعتوں میں امام کو جہر کرنا واجب ہے اور اگر اکیلا پڑھے تو اس کو اختیار ہے کہ جہر کرے یا نہ کرے رمضان المبارک کے علاوہ نمازِ وتر کا جماعت سے ادا کرنا اگر تداعی کے طور پر نہ ہو اور تین سے زیادہ کی جماعت نہ ہو تو جائز ہے ورنہ مکروہِ تحریمی ہے جیسا کہ اور نوافل کا حکم ہے ، اس کی تینوں رکعتوں میں الحمد اور سورة پڑھی جاتی ہے اس لئے جماعت کی صورت میں اس کی تینوں رکعتوں میں جہر کرے
4.وتر کی نماز کا وقت عشا کی نماز کے بعد سے لے کر صبح صادق سے پہلے تک ہے ، جس کسی کو آخر شب میں اپنے جاگنے پر پورا بھروسہ ہو اس کو مستحب و افضل یہ ہے کہ نماز وتر آخر رات میں پڑھے اور اگر اٹھنے میں شک ہو اور قضا ہونے کا اندیشہ ہو تو عشا کی نماز کے بعد ہی پڑھ لینا چاہئے
5.وتر اپنے وقت میں عشا کی نماز کا تابع نہیں ہے اور عشا کی نماز کو اس سے پہلے پڑھنا ترتیب کی وجہ سے واجب ہے اور بھولنے کے عذر سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے اس لئے اگر کوئی شخص بھول کر نمازِ وتر عشا سے پہلے پڑھ لے تو صحیح ہو جائے گی
6.وتر کی نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھی جائیں اس طرح پر کہ دو رکعتیں اور نمازوں کی طرح پڑھ کر قعدے میں بیٹھے اور التحیات پڑھ کر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے اور اس رکعت میں الحمد شریف اور سورة پڑھ کر اللّٰہ اکبر کہتا ہوا دونوں ہاتھ تکبیر تحریمہ کی طرح کانوں تک اٹھائے اور پھر ہاتھ باندھ کر دعائے قنوت پڑھے پھر اللّٰہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائے اور باقی نماز معمول کے مطابق پوری کرے اس کا پہلا قعدہ فرضوں کی طرح واجب ہے پس اس قعدہ میں درود و دعا نہ پڑھے اور جب تیسری رکعت میں کھڑا ہو تو ثنا و تعوذ نہ پڑھے اور اگر بھول کر قعدہ نہ کرے اور کھڑا ہو جائے تو واپس نہ لوٹے اور آخر میں سجدہ سہو کر لے جیسا کہ فرضوں میں حکم ہے وتر کی تینوں رکعتوں میں الحمد کے بعد کوئی سورة یا کم از کم تین چھوٹی آیتیں ملانا واجب ہیں تینوں رکعتوں میں اختیار ہے خواہ کوئی سی سورتیں پڑھے لیکن کبھی کبھی پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری میں قل یا ایھاالکافرون اور تیسری رکعت میں قل ھو اللّٰہ احد پڑھنا مستحب ہے
7.امام ہو یا مقتدی یا منفرد ہو سب کو دعائے قنوت آہستہ پڑھنی چاہئے خواہ وہ نماز وتر ادا ہو یا قضا اور خواہ رمضان المبارک میں ہو یا اور دنوں میں ہو سب جگہ یہی حکم ہے اور یہ آہستہ پڑھنا واجب نہیں بلکہ سنت ہے
8.قنوت کی کوئی دعا مقرر نہیں لیکن مشہور دعا کا پڑھنا اولی اور سنت ہے اور وہ یہ ہے
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَستَعِینُکَ وَ نَستَغفِرُکَ وَنُو مِنَ بِکَ وَ نَتَوَکَّلُ عَلَیکَ وَ نُثنِی عَلَیکَ الخَیرَ وَ نَشکُرُکَ وَلَا نَکفُرُکَ وَنَخَلَعُ وَنَترَکَ مَن یَّفجُرُکَ اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ لَکَ نُصَلَّی وَ نَسجُدُ وَ اِلَیکَ نَسعٰی وَنَحفِدُ وَنَرَ جُوا رَحمَتَکَ وَ نَخشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالکُفَّارِ مُلحِقُ ط
اس کے بعد یہ دعا بھی پڑھ لے تو بہتر و افضل ہے
اَللّٰھُمَّ اھدِنِی فِیمَن ھَدَایتَ وَعَافِنِی فِیمَن عَافَیتَ وَ تَوَلَّنِی فِیمَن تَوَلَّیتَ وَ بَارَکَ لِی فِیمَا اَعطَیتَ وَقِنِی شَرَّمَا قَضَیتَ فَاِنَّکَ تَقضِی وَلَا یُقضٰی عَلَیکَ وَاِنَّہُ لَا یَذُلُّ مَن وَّ الَیتَ وَلَا یَعِزُّ مَن عَادَیتَ تَبَارَکتَ رَبَّنَا وَ تَعَالَیتَ نَستَغفِرُکَ وَنَتُوبَ اِلَیکَ ط
۹.اگر دعا قنوت یاد نہ ہو تو یہ دعا پڑھ لیا کرے
ربنا اتنا فی الدنیا حسنت و فی الا خرةِ حسنت و قنا عذاب النار ط
یا اللّٰھم اغفرلی تین دفعہ کہہ لے یا تین دفعہ یا رب کہہ لے تو نماز ہو جائے گی لیکن مشہور دعائے قنوت کو جلدی یاد کر لے
10. مقتدی قنوت میں امام کی متابعت کرے پس اگر مقتدی نے دعائے قنوت پوری نہیں پڑھی کہ امام رکوع میں چلا گیا تو مقتدی دعائے قنوت کو چھوڑ دے اور رکوع میں چلا جائے اور مقتدی نے قنوت بالکل نہیں پڑھی تو جلدی سے مختصر دعا مثلاً اللھم الغفرلی تین بار کہ کر رکوع میں مل جائے اور اگر اس قدر بھی نہ ہو سکے تو چھوڑ دے اور رکوع میں چلا جائے
11.اگر دعائے قنوت پڑھنا بھول گیا اور رکوع میں یاد آیا تو صحیح یہ ہے کہ رکوع میں قنوت نہ پڑھے اور قیام کی طرف بھی نہ لوٹے اور آخر میں سجدہ سہو کر لے اور اگر قیام کی طرف لوٹا اور قنوت پڑھی تو رکوع کا اعادہ نہ کرے اور سجدہ سہو کر لے لیکن اُسے قیام کی طرف لوٹنا برا ہے اور اگر اس صورت میں رکوع کا اعادہ بھی کر لیا اور سجدہ سہو کر لیا تب بھی نماز صحیح ہو گی لیکن یہ دوبارہ رکوع کرنا لغو ہو گا اور اس حالت میں کوئی نیا مقتدی شامل ہونے والا اس رکعت کو پانے والا نہیں ہو گا خوب سمجھ لیجئے اور اگر رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یاد آیا کہ قنوت بھول گیا ہے تو بالا اتفاق قنوت کی طرف نہ لوٹے اور سجدہ سہو کر لے
12.اگر الحمد کے بعد قنوت پڑھ کر رکوع کر دیا اور سورة ترک ہو گئی پھر رکوع میں یاد آیا تو رکوع سے واپس لوٹے اور سورة پڑھے اور قنوت و رکوع کا اعادہ کرے اور سجدہ سہو کرے اور اگر الحمد چھوڑ دی تو بھی واپس لوٹے اور الحمد کے ساتھ سورة اور قنوت و رکوع کا اعادہ کرے اور سجدہ سہو کرے ان صورتوں میں اگر رکوع کا اعادہ نہ کیا تو نماز درست نہیں ہو گی
13.مسبوق کو چاہئے کہ امام کے ساتھ قنوت پڑھے پھر بعد میں نہ پڑھے اور اگر تیسری رکعت کے رکوع میں شامل ہو اور امام کے ساتھ قنوت نہیں پڑھی تو اپنی بقیہ نماز میں قنوت نہ پڑھے کیونکہ امام کا پڑھنا قرأت کی طرح اس مقتدی کے لئے کافی ہو گیا
14.اگر وتر کسی ایسے امام کے پیچھے پڑھے جو رکوع کے بعد قومہ میں قنوت پڑھتا ہے جیسے شافعی المذہب امام کے پیچھے تو حنفی مقتدی قنوت میں اس امام کی متابعت کرے اور قومہ میں اس کے ساتھ پڑھے لیکن اگر وہ امام تین وتر ایک سلام کے ساتھ نہ پڑھتا ہو تو اس کے پیچھے وتر نہ پڑھے بلکہ اکیلا پڑھ لے
15.اگر فجر کی نماز میں شافعی مذہب کے امام نے قنوت پڑھی تو حنفی مقتدی نہ پڑھے بلکہ ہاتھ لٹکائے ہوئے اتنی دیر کھڑا رہے یہی صحیح ہے