تمام حاضرین میں سے جس میں امامت کے سب سے زیادہ اوصاف پائے جائیں اس کو امام بنانا چاہئے لیکن بادشاہ اسلام کے ہوتے ہوئے کسی اور کو اس کی اجازت کے بغیر حق امامت نہیں ہے ، اس کے بعد والی پھر قاضی پھر مسجد کا امام معین یا گھر میں صاحب خانہ جب کہ امامت کا اہل ہو ہر حال میں مقدم ہو گا،
1.امامت کے لئے سب سے مقدم وہ شخص ہے جو عالم ہو یعنی نماز کے مسائل سب سے زیادہ جانتا ہو اگرچہ دوسرے علوم میں کم ہو اور یہ بھی شرط ہے کہ اس کے اعمال اچھے ہوں اگر اس میں دو آدمی برابر ہوں تو جو
(2) زیادہ قاری ہو اور قرآن مجید قواعد کو مطابق زیادہ صحیح پڑھتا ہو پھر جو
(3) زیادہ پرہیزگار ہو یعنی حلال و حرام میں شبہ سے بھی بچتا ہو
(4) پھر جو عمر میں زیادہ ہو یعنی اسلام کی حالت میں زیادہ عرصہ سے ہو
(5) پھر جو اخلاق میں زیادہ اچھا ہو
(6) پھر جو خوبصورتی میں زیادہ ہو اس سے مراد تہجد زیادہ پڑھنے والا ہے کیونکہ اس سے چہرے پر خوبصورتی زیادہ آتی ہے اور یہ جماعت کی کثرت کا سبب ہے
(7) پھر جو حسب میں زیادہ ہو
(8) پھر جو نسب میں یعنی خاندان کے لحاظ سے زیادہ شریف ہو مثلاً سید اور لوگوں پر مقدم ہے
(۹) پھر جس کی آواز زیادہ اچھی ہو
(10) پھر جس کے پاس حلال مال زیادہ ہو
(11) پھر جو جاہ و وقار میں زیادہ ہو
(12) پھر جو عمدہ لباس پہنے
(13) پھر جس کا سر تناسب کے ساتھ دوسروں سے بڑا ہو یہ عقل کی بڑائی کی دلیل ہے غیر متناسب (بہت ہی زیادہ ) بڑا نہ ہو
(14) مقیم مسفر پر مقدم ہے جب باقی نمازی مقیم ہوں یا مقیم و مسافر ملے جلے ہوں
(15) پھر آزاد اصلی آزاد شدہ غلام پر مقدم ہے ،
جب کسی صفت میں دو شخص مقابل و برابر ہوں تو جو زیادہ عرصہ سے اس صفت کا اہل ہو مقدم ہو گا مثلاً دونوں عالم ہیں تو جس کا علم پہلے سے ہے یا دونوں قاری ہیں تو جس کو فن قرأت دوسرے سے زیادہ عرصہ سے آتا ہے وغیرہ، اگر یہ ساری صفتیں دونوں یا زیادہ شخصوں میں جمع ہو جائیں اور کوئی وجہِ ترجیع نہ ہو تو قرعہ ڈالا جائے یا جماعت کے اختیار پر چھوڑ دیں اور مقتدیوں کے اختیار کی صورت میں اگر اختلاف ہو تو کثرت رائے کا اعتبار ہو گا اگر مسجد کا امام معین ہو اور جماعت کے وقت اس سے افضل کوئی شخص آ جائے تب بھی امام معین اس اجنبی شخص سے زیادہ مستحق ہے