نماز کی پوری ترکیب جو سلف سے منقول چلی آرہی ہے جس میں سب فرض و واجب و سنت اور مستحب اپنی اپنی جگہ پر ادا ہوں اس طرح پر ہے کہ جب نماز پڑھنے کا ارادہ ہو تو تمام شرائطِ نماز کے ساتھ شروع کرے یعنی پہلے اپنا بدن حدث اکبر و اصغر اور ظاہری ناپاکی سے پاک کر کے پاک کپڑے پہن کر پاک جگہ پر قبلے کی طرف منھ کر کے اس طرح کھڑا ہو کہ دونوں قدموں کے درمیان چار انگل یا اس کے لگ بھگ فاصلہ رہے پھر جو نماز پڑھنی ہے اس کی نیت دل میں کرے مثلاً یہ کہ آج کی فجر کی فرض نماز اللّٰہ تعالیٰ کے واسطے پڑھتا ہوں اور زبان سے بھی کہہ لے تو اچھا ہے پھر دونوں ہاتھ کانوں کی لو تک اٹھائے اس طرح کہ ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور انگلیاں قبلہ رخ رہیں اور انگوٹھے کانوں کی لو کے مقابل ہوں ، انگلیوں کے سرے کانوں کے کناروں کے مقابل ہوں انگلیاں اعتدال کے ساتھ ایک دوسرے سے جدا رہیں یعنی عادت کے مطابق درمیانی حالت میں ہوں ، بالکل ملی ہوئی یا زیادہ کھلی ہوئی نہ ہوں اور جب کانوں کی لو تک انگوٹھے پہنچ جائیں تو تکبیر یعنی اللّٰہ اکبر کہے ، ہاتھ تکبیر سے پہلے اٹھائے یہی اصح ہے تکبیر تحریمہ کے وقت سر نہ جھکائے بلکہ اعتدال کے ساتھ کھڑا رہے اور تمام نماز میں اسی اعتدال کے ساتھ کھڑا ہو، تکبیر تحریمہ سے فارغ ہوتے ہی دونوں ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے، بعض ناواقف لوگ تکبیر تحریمہ سے فارغ ہوتے ہی دونوں ہاتھوں کے نیچے لٹکا دیتے ہیں پھر ان کو ناف کے نیچے باندھتے ہیں ، یہ لٹکانا ٹھیک نہیں ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے ناف کے نیچے اس طرح ہاتھ باندھے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر یعنی کلائی کے جوڑ پر رہے اور انگوٹھے اور چھنگلیا سے حلقہ کے طور پر بائیں ہاتھ کی کلائی کو پکڑ لے باقی تین انگلیاں کلائی کی پشت پر رہیں اور نظر سجدے کی جگہ پر رہے پھر آیستہ آواز سے کہ جس کو صرف خود سن سکے ثنا پڑھے اور وہ یہ ہے
سُبحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمدِکَ وَ تَبَارَکَ اسمُکَ وَ تَعَالٰی جَدَّکَ وَلَا اَلٰہَ غَیرُک،
امام یا مقتدی یا تنہا نماز پڑھتا ہو سب کے لئے یہی حکم ہے اور ثنا میں جَلَ ثَنَاوُکَ سوائے نماز جنازہ کے اور کسی نماز میں نہ پڑھے اور اِنَّی وَجَّھتُ وَجھِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَ الاَرضَ حَنِیفَا وَّ مَا اَنَا مِنَ المُشرِکِین ط اِنَّ صَلٰوتِی وَ نُسُکِی وَ مَحیَایَ وَ مَمَاتِی لِلّٰہِ رَبَّ العٰلَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہُ وَ بِذَالِکَ اُمِرتُ وَاَنَا اَوَّلُ المُسلِمِینَ ط
تحریمہ کے بعد نہ پڑھے اور نہ ثنا کے بعد پڑھے البتہ نفل نماز میں ثنا کے ساتھ ملانا جائز ہے اور اولیٰ یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ سے پہلے بھی اس سے نیت ملانے کے لئے نہ پڑھے یہی صحیح ہے اور متاخرین نے اس کو اختیار کیا ہے کہ تحریمہ سے پہلے اس کو کہہ لے اور صحیح قول یہ ہے کہ اس میں انَّا اَوَّل المُسلِمِینَ کہنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی کیونکہ نمازی اس کو تلاوت کے قصد سے کہتا ہے نہ کہ اپنے حال کی خبر دیتا ہے نیز احادیثِ صحیحہ سے اس کا پڑھا جانا ثابت ہے اس لئے مفسدِ نماز نہیں ہو سکتا البتہ اس کا جواز نفلوں میں پڑھنے پر محمول کیا گیا ہے
پھر تعوذ یعنی اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمَ ط پڑھے اور سنت یہ ہے کہ اسے آہستہ پڑھے امام ابو حنیفہ و امام محمد کے نزدیک تعوذ قرأت کے تابع ہے ثنا کا تابع نہیں اس پر فتویٰ ہے اس لئے مسبوق جب اپنی باقی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو تو تعوذ پڑھے، اور جو مقتدی شروع سے امام کے ساتھ شریک ہو وہ تعوذ نہ پڑھے کیونکہ وہ قرأت نہیں پڑھے گا اور عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں عید کی تکبیروں کے بعد تعوذ پڑھے اس لئے کہ تکبیروں کے بعد قرأت پڑھے گا اور تعوذ نماز شروع کرتے وقت یعنی پہلی رکعت میں ہے باقی رکعتوں میں نہیں ہے ، پس اگر نماز شروع کر دی اور تعوذ کو بھول گیا یہاں تک کہ الحمد پڑھ لی پھر اس کے بعد یاد آیا تو تعوذ نہ پڑھے، اسی طرح اگر ثنا پڑھنا بھول گیا اور الحمد شروع کر دی درمیان میں یاد آیا تو اب اس کو نہ پڑھے، اس لئے کہ ان کو پڑھنے کا موقع جاتا رہا، تعوذ کے بعد بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم آہستہ پڑھے خواہ وہ نماز جہری ہو یا سری اور خواہ امام ہو یا منفرد، بسم اللّٰہ ہر رکعت کے اول میں پڑھے یعنی الحمد سے پہلے پڑھے اسی پر فتویٰ ہے ، فاتحہ اور سورة کے درمیان میں بسم اللّٰہ پڑھنا سنت نہیں ہے خواہ نماز سری ہو، یہی صحیح ہے لیکن مکروہ بالاتفاق نہیں بلکہ سورة سے پہلے آہستہ پڑھنا مستحب ہے اگرچہ جہری نماز ہو، البتہ اگر سورة کی جگہ آیات پڑھے تو اس کے شروع میں بسم اللّٰہ پڑھنا بالاتفاق سنت نہیں ہے بسم اللّٰہ کے بعد الحمد شریف (سورة فاتحہ) پڑھے جبکہ وہ منفرد یا امام ہو اور مقتدی نہ پڑھے اور جب سورة فاتحہ ختم کر لے تو آہستہ سے آمین کہے خواہ تنہا نماز پڑھنےوالا ہو یا امام یا مقتدی ہو جبکہ قرأت سنتا ہو، اور اس پر اتفاق ہے کہ یہ نماز کا جزو نہیں اس کے معنی ہیں " اے اللّٰہ تو ہماری دعائیں قبول کر" آمین میں دو لغت ہیں مدّ بھی ہے اور قصر بھی، یعنی بغیر مدّ کے بھی اس کے تلفّظ کی نو سورتیں ہیں ، ان میں سے ان پانچ سورتوں میں نماز فاسد نہیں ہوتی
1.آمین الف کی مد کے ساتھ، اس طرح کہنا سنت اور افضل ہے
2. قصر کے ساتھ یعنی امین
3. امالے کے ساتھ یعنی ایمین ( ان دونوں طرح سے بھی جائز ہے اور سنت ادا ہو جاتی ہے لیکن افضل نہیں ہے )
4.الف کا مدّ اور میم کی تشدید پڑھنا یعنی آمّین
5.الف کا مدّ اور ی کا حذف یعنی آمِن ( ان دونوں سورتوں میں سنت ادا نہیں ہوتی لیکن نماز فاسد بھی نہیں ہوتی اس لئے کہ یہ الفاظ قرآن میں موجود ہیں ) چار سورتیں ایسی ہیں جن سے نماز فاسد ہو جاتی ہے
1. الف مقصورہ مع تشدید میم یعنی اَمِّن
2. الف مقصورہ مع حذف ی یعنی اَمِن
3. تشدید میم و حذف ی یعنی اَمِّن
4. الف مقصورہ و میم مقصورہ مع حذف ی یعنی اَمِّن ( یہ چاروں الفاظ قرآن میں نہیں ہیں اس لئے مفسدِ نماز ہیں )
اگر مقتدی آہستہ قرأت والی نماز یعنی ظہر و عصر میں امام سے وَلَا الضَّالَّینَ سن لے تو بعض مشائخ نے کہا ہے کہ آمین نہ کہے اس لئے کہ اس جہر کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور بعض نے کہا ہے کہ آمین کہے ، جمعہ یا عیدین کی نماز میں یا اور جس نماز میں جماعت کثیر ہو اگر مقتدی بلاواسطہ امام کی تکبیر نہ سُنے بلکہ بالواسطہ سن لے یعنی دوسرے مقتدیوں کی ( جو امام کے قریب ہیں ) آمین سن لے تو بعض کے نزدیک آمین کہے پھر کوئی سورة یا بڑی ایک آیت یا تین چھوٹی آیتیں پڑھے تاکہ واجب قرأت ادا ہو جائے بلکہ قرأتِ مسنونہ کے مطابق پڑھے تاکہ کراہتِ تنزیہی دور ہو، قرأتِ مسنونہ کا بیان آگے آتا ہے ، قرأت صاف صاف اور صحیح صحیح پڑھے جلدی نہ کرے لیکن اگر امام کے پیچھے نماز پڑھے یعنی مقتدی ہو تو صرف ثنا پڑھ کر خاموش کھڑا رہے تعوذ و تسمیہ سورة فاتحہ نہ پڑھے قرأت سے فارغ ہو کر رکوع کرے اس طرح پر کہ کھڑا ہوا اللّٰہ اکبر شروع کرے اور کہتے ہوئے جھکتا جائے یعنی تکبیر کی ابتدا جھکنے کی ابتدا کے ساتھ ہو اور فراغت اس وقت ہو جب پورا رکوع میں چلا جائے اور اس مسافت کو پورا کرنے کے لئے اللّٰہ کے لام کو بڑھائے اکبر کی ب وغیرہ کسی حرف کو نہ بڑھائے معتمد قول یہ ہے کہ سب قرأت پوری کر کے رکوع میں جائے کوئی حرف یا کلمہ جھکنے کی حالت میں پورا کرنے میں بعض کے نزدیک کچھ مضائقہ نہیں لیکن یہ قول ضعیف اور غیر معتمد ہے ، امام رکوع و سجود کی تکبیروں میں جہر کرے اور ہر تکبیر میں اللّٰہ اکبر کی ر کو جزم کرے یعنی ساکن کرے، رکوع میں انگلیوں کو کھلا کر کے ان سے گھٹنوں کو پکڑ لے اور دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں پر سہارا دے انگلیوں کا کھلا رکھنا سوائے اس وقت کے اور انگلیوں کو ملا ہوا رکھنا سوائے حالت سجدہ کے اور کسی وقت سنت نہیں ہے یعنی نماز کے اندر ان دو موقعوں کے سوا اور سب موقعوں میں انگلیوں کو اپنی حالت میں رکھے نہ زیادہ کھلی ہوں نہ زیادہ ملی ہوئی ہوں ، رکوع میں پیٹھ کو ایسا سیدھا بچھا دے کہ اگر اس پر پانی کا پیالہ رکھ دیا جائے تو ٹھیک رکھا رہے ، سر کو نہ اونچا کرے نہ جھکائے بلکہ سر اور پیٹھ اور سرین ایک سیدھ میں رہیں ، بازو پہلوؤں سے جدا رہیں ، پنڈلیاں سیدھی کھڑی رہیں اپنے گھٹنوں کو کمان کی طرح جھکانا جیسا کہ اکثر عوام کرتے ہیں مکروہ ہے (بازوؤں میں بھی خم نہیں ہونا چاہئے ، اکثر عوام رکوع میں گھٹنوں اور بازوؤں میں خم کر دیتے ہیں ) رکوع میں نظر دونوں پاؤں کی پیٹھ پر رہے اور سَبحَانَ رَبَّیَ العَظِیمَ تین بار پڑھے، یہ کم سے کم تعداد ہے اگر تسبیح بالکل نہ پڑھے یا ایک بار پڑھے تو بھی جائز ہے مگر مکروہِ تنزیہی ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ یہ کراہتِ تنزیہی سے زیادہ تحریمی سے کم ہے (اس میں ائمہ کا اختلاف ہے ، امام مالک اور بعض احناف کے نزدیک ایک تسبیح کہنا واجب ہے اس لئے ضروری کہہ لینا چاہئے تاکہ اختلاف ائمہ سے بچا رہے )
جب رکوع طمانیت سے ہو جائے تب سر اٹھائے اور اگر طمانیت نہ ہوئی تو صحیح یہ ہے کہ ترک واجب کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہو گا، اگر امام ہے تو رکوع سے سر اٹھاتے ہوئی صرف سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہ پڑھے اور اگر مقتدی ہے تو صرف رَبَّنَالَکَ الحَمد پڑھے اور سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہ نہ پڑھے اور اگر تنہا نماز پڑھے تو اصح یہ ہے کہ دونوں کو پڑھے اور سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہ رکوع سے اٹھتے ہوئے کہے یعنی سر اٹھانے کے ساتھ ہی یہ الفاظ شروع کر دے اور کھڑا ہونے تک پورا کرے، جھکے جھکے یا سیدھا ہو کر نہ کہے اور جب سیدھا ہو جائے تو رَبَّنَالَکَ الحَمد کہے یہی سنت ہے کسی شخص نے رکوع سے اٹھتے وقت سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہ نہ کہا اور سیدھا کھڑا ہو گیا تو اب سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہ نہ کہے اور اسی طرح ہر اُس ذکر کا حال ہے جو حالت انتقال یعنی رکن بدلنے کے لئے ہے جیسے تکبیر کے قیام سے رکوع کی طرف جھکتے وقت یا رکوع سے سجدے کی طرف جھکتے وقت یا سجدے سے اٹھتے وقت کہتے ہیں ، اگر اس کو اس کے مقام پر ادا نہ کرے تو بعد میں ادا نہ کرے اسی طرح سجدے میں جو تسبیح باقی رہ جائے تو وہ سر اٹھانے کے بعد نہ کہے بلکہ ضروری ہے کہ ہر چیز میں اس کی جگہ کی رعایت کرے سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہُ کی ہ کو جزم کرے اور حرکت ( یعنی پیش) کو ظاہر نہ کرے یعنی ھُو نہ کہے ( ایک قول کے مطابق ضمہ اشباع کے ساتھ یعنی حَمِدَ ھُو کہے ) پھر جب سیدھا کھڑا ہے جائے تو تکبیر کہہ کر سجدے میں جائے ، تکبیر ( اللّٰہ اکبر) جھکتے ہوئے کہے اور سجدے میں پہنچنے تک ختم کرے، سجدے میں سُبحَاَنَ رَبَّی الاَعلٰی تین بار پڑھے اور یہ کم سے کم تعداد ہے اگر تسبیح بالکل ترک کر دے گا یا تین بار سے کم کہے گا تو یہ فعل مکروہِ تنزیہی ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ تنزیہی سے زیادہ اور تحریمی سے کم ہے اور ائمہ کے اختلاف سے بچنے کے لئے کہہ لینا چاہئے جیسا کہ رکوع میں بیان ہوا اور رکوع و سجدے کی تسبیح تین بار سے زیادہ کہنا مستحب ہے جبکہ امام نہ ہو لیکن طاق عدد پر ختم کرے یعنی تسبیح کم سے کم تین بار پڑھے اور اوسط پانچ بار اور اکمل سات بار اور اس سے بھی زیادہ کرے تو زیادہ ثواب ہے اگر امام ہو تو تین بار سے زیادہ نہ کرے تاکہ مقتدیوں پر تنگی نہ ہو (لیکن اس قدر اطمینان سے کہے کہ مقتدی بھی تین بار کہ سکیں )
سجدے میں جاتے وقت پہلے زمین پر وہ اعضا رکھے جو زمین سے قریب ہیں پھر اس کے بعد والے علی الترتیب رکھے پس پہلے دونوں گھٹنے رکھے پھر دونوں ہاتھ پھر ناک پھر پیشانی رکھے اور پیشانی کا اکثر حصہ ضرور لگائے کیونکہ یہ واجب ہے اور پیشانی کو اس طرح رکھے کہ اچھی طرح قرار پکڑ لے اور جب سجدے سے اٹھے تو اس کے برخلاف کرے یعنی پہلے پیشانی پھر ناک پھر دونوں ہاتھ پھر گھٹنے اٹھائے یہ اس وقت ہے جبکہ ننگے پاؤں ہو یا اور کوئی عذر نہ ہو لیکن اگر کوئی عذر ہو مثلاً موزے پہنے ہوئے ہوں یا عمر زیادہ ہو کہ پہلے گھٹنے نہیں رکھ سکے گا تو دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے رکھ لے اگر عذر کی وجہ سے دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے علی الترتیب ایک ساتھ زمین پر نہیں رکھ سکتا تو دائیں ہاتھ اور گھٹنے کو بائیں پر مقدم کرے لیکن بلا عذر ایک ساتھ نہ رکھنا مکروہ ہے ، سجدے میں دونوں ہاتھ کانوں کے مقابل میں رکھے یعنی چہرہ دونوں ہتھیلیوں کے درمیان اور انگوٹھے کانوں کی لو کے مقابل رہیں ، ہاتھوں کی انگلیاں ملی رہیں تاکہ سب کے سرے قبلے کی طرف رہیں اور دونوں پاؤں کی سب انگلیوں کے سرے بھی قبلہ رخ رہیں ، ہتھیلیوں پر سہارا دے اپنے بازوؤں کو پہلوؤں سے جدا رکھے لیکن جماعت کے اندر بازوؤں کو پہلوؤں سے ملائے رکھے جدا نہ رکھے کہنیوں کو زمین پر نہ بچھائے بلکہ زمین سے اٹھا ہوا رکھے اور پیٹ کو رانوں سے جدا رکھے نگاہ ناک کی نوک ( سرےِ) پر رہے پھر اللّٰہ اکبر کہتا ہوا اپنے سر کو اٹھائے اور اطمینان سے سیدھا بیٹھ جائے اس کو جلسہ کہتے ہیں جلسہ میں طمانیت یعنی ایک بار سبحان اللّٰہ کہنے کی مقدار بیٹھے یہ طمانیت واجب ہے اور اس کے ترک پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے اس جلسہ میں کوئی ذکر مسنون نہیں ہے اور اسی طرح رکوع سے سر اٹھانے کے بعد تسمیح و تحمید کے علاوہ اور کوئی دعا مسنون نہیں اور ایسا ہی رکوع و سجود میں تسبیح کے سوا اور کچھ نہ کہے اور جو ذکر یا دعائیں ان موقعوں کو لئے حدیثوں میں آئی ہیں وہ نوافل کے لئے ہیں لیکن فرضوں کے جلسے میں بھی مستحب یہ ہیں کہ دعائے مسنون پڑھے وہ یہ ہے :
اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی وَ عَافِنِی وَ اھدِنِی وَ ارزُقنِی ط یہ صرف رَبَّ اغفِرلِی
ایک یا تین بار پڑھ لیا کرے اس مستحب کی عادت کی برکت سے جلسے میں طمانیت کا واجب بھی ادا ہو جائے گا ورنہ اکثر لوگ اس کے تارک ہیں اور اس کی ضرورت سے غافل ہیں ، پھر تکبیر کہتا ہوا دوسرے سجدے کے لئے جھکے اور دوسرے سجدے میں بھی پہلے سجدے کی طرح تسبیح پڑھے پھر جب سجدے سے فارغ ہو تو پنجوں کے بل اٹھے بلا عذر دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر کھڑا نہ ہو بلکہ دونوں ہاتھوں سے دونوں گھٹنوں پر سہارا دے کر کھڑا ہو دوسرے سجدے کے بعد بیٹھنا جس کو جلسہ استراحت کہتے ہیں حنفی مذہب میں بلا عذر کے نہیں ہے لیکن اگر کسی کو عذر ہو تو اس کو زمین پر سہارا دے کر کھڑا ہونا یا قلیل جلسہ استراحت کرنا مستحب ہے ، اور اگر بلا عذر دوسرے سجدے کے بعد بیٹھا (یعنی جلسہ استراحت کیا) یا دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر کھڑا ہوا تو مضائقہ نہیں لیکن خلاف اولیٰ اور مکروہِ تنزیہی ہے دوسری رکعت بھی اسی طرح ادا کرے جس طرح پہلی رکعت ادا کی ہے مگر ثنا اور تعوذ نہ پڑھے یعنی ہاتھ باندھ کر بسم اللّٰہ، الحمد اور سورة پڑھ کر رکوع، قومہ و سجدہ، جلسہ اور دوسرا سجدہ کرے اور جب دوسری رکعت کے دوسرے سجدے سے سر اٹھائے تو قعدہ کرے اس طرح کہ بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھے (یعنی اس کو اپنی دونوں سرین کے نیچے رکھے) اور دایاں پاؤں کھڑا کرے اور اپنے کھڑے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ کی طرف کرے، بچھے ہوئے پاؤں کی انگلیوں کو بھی قبلہ رخ رکھے اور دونوں ہاتھ دونوں رانوں پر رکھ کر قدرتی حالت میں انگلیاں پھیلا دے، ہاتھوں کی انگلیوں کے سرے گھٹنوں کے قریب ہوں اور قبلہ کی طرف رہیں ، انگلیوں سے گھٹنوں کو پکڑنا نہیں چاہئے یہی اصح ہے اگرچہ پکڑنا بھی جائز ہے مگر نہ پکڑنا افضل ہے اس لئے کہ پکڑنے سے انگلیوں کے سرے قبلہ رخ نہیں رہیں گے بلکہ زمین کی طرف ہو جائیں گے جلسے اور قعدے میں نظر اپنی گود پر رہے ،
قعدے میں حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کا تشہد پڑھے اور وہ یہ ہے
اَلتَّحَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَ الطَّیَّبَاتُ ط اَلسَّلَامُ عَلَیکَ اَیُّھَالنَّبِیُّ وَ رَحمَتُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہُ ط اَلسَّلَامُ عَلَینَا وَعَلٰی عِبَادِاللّٰہِ الصَّالِحِینَ ط اَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشَھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً اعَبدُہُ وَ رَسُولُہُ ط
اور جب اَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پر پہنچے تو شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے اور بیچ کی انگلی سے حلقہ باندھ لے اور چھنگلیا اور اس کے پاس کی انگلی کو ( مٹھی کی طرح) بند کرے اور کلمہ کی انگلی اٹھا کر اشارہ کرے لَّا اِلٰہَ پر انگلی اٹھائے اور اِلَّا اللّٰہ پر جھکا دے اور پھر قعدے کے آخر تک اسی طرح حلقہ باندھے رکھے، تشہد کے بعد درود شریف پڑھے اور وہ یہ ہے
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّد کَمَا صَلَّیتَ عَلٰی اِبرَاھِیمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِیدُُ مَّجِیدُُ ط اَللّٰھُمَّ بَارِک عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّد کَمَا بَارَکتَ عَلٰی اِبرَاھِیمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِیدُُ مَّجِیدُُط
نماز میں بھی درود شریف میں حضور انور علیہ الصلواة وسلام کے نام مبارک اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام مبارک کے ساتھ لفظ سیدنا ملانا افضل و بہتر ہے اور بعض کے نزدیک نہ ملانا بہتر ہے اور تشہد میں اشھدان محمدًا کے ساتھ سیدنا کا لفظ نہ ملائیں جب درود سے فارغ ہو جائیں تو اپنے لئے اور اپنے ماں باپ اور سب مسلمان مردوں اور عورتوں کے واسطے مغفرت کی دعا مانگیں اور دعا میں صرف اپنی تخصیص نہ کریں یہی صحیح ہے ( کافر ماں باپ و اساتذہ کے لئے جب مر گئے ہوں دعا مغفرت حرام ہے اور بعض فقہ نے کفر تک لکھا ہے ہاں اگر زندہ ہوں تو ان کے لئے ہدایت و توفیق کی دعا کریں، گناہگار مومنون کے لئے دعائے مغفرت مانگنا جائز ہے کیونکہ اس میں اپنے مومن بھائیوں پر فرط محبت کا اظہار اور اس میں نص کی مخالفت نہیں ہے کیونکہ ارشاد باری !تعالیٰ ہے
ِانَّ اللّٰہَ لَا یَغفِرَ اَن یُشرِکَ بِہِ وَ یَغفِرَ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَآء ط
یعنی مشرک کے علاوہ اللّٰہ تعالیٰ جس کو چاہے گا بخش دے گا اور اس طرح دعا نہ مانگے جس طرح آدمیوں سے باتیں کرتا ہے یا جس کا بندوں سے مانگنا ممکن ہے مثلاً اللّٰھُمَّ زَوَّجنِی نہ کہے ، محلات عادّیہ مہلات شرعیہ کی دعا مانگنا حرام ہے ، ماثورہ دعاؤں میں سے پڑھے یعنی جو دعائیں قرآن پاک یا حدثوں میں آئی ہیں پڑھے مثلاً
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنیَا حَسَنَتً وَّ فِیَ الاَخِرةِ حَسَنَتً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ط
یا یہ دعا پڑھے
اٰللَّھُمَّ اغفِرلِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِجَمِیعِ المُومِنِینَ وَالمُؤمِنَاتِ وَ المُسلِمِینَ وَ المُسلِمَاتِ اَلاَ حیَآءِ مِنھُم وَالاَ موَاتِ ط
دیگر
رَبِّ اجعَلنِی مُقِیمَ الصَّلٰوةِ وَمِن ذُرِّیَتِی رَبَّنَا وَ تَقَبَّل دُعَآ ءً ط
ربنا اغفرلی ولوالدی و للمومنین یوم یقوم الحساب
دیگر
اَللَّھُمَّ اِنَّی ظَلَمتُ نَفسِی ظُلمًا کَثِیرًاوَّ لَا یَغفِرَ الذُّنُوبَ اِلَّا اَنتَ فَاغفِرلِی مَغفِرَةً مِن عِندِکَ وَ ارحَمنِی اِنکَ اَنتَ الغَفُورُ الرَّحِیمَ ط
(یہ دعا آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے نماز میں پڑھنے کے لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کو تعلیم فرمائی) یا کوئی اور دعا جو قرآن یا حدیث میں آئی ہو پڑھے اگر قرآن کی دعا پڑھے تو قرأت یعنی قرآن پڑھنے کی نیت نہ کرے اس لئے کہ قرأت قیام کے سوا دوسرے ارکان رکوع و سجود و قعدہ میں مکروہ ہے بلکہ دعا کی نیت سے پڑھے، دعا عربی زبان میں پڑھے، نماز کے اندر غیر عربی میں دعا پڑھنا مکروہ ہے
پھر دونوں طرف یعنی دائیں اور بائیں سلام پھیرے، پہلے سلام میں اس قدر داہنی طرف کو پھرے کہ اس کے داہنے رخسارے کی سفیدی اس طرف کے پیچھے والے نمازی کو نظر آ جائے اور اسی قدر بائیں طرف کو پھیرے یہی اصح ہے اور لفظ !
اَلسَّلَامُ عَلَیکُم وَ رَحمَتُ اللّٰہِ
کہے اگر صرف السلام علیکم یا صرف السلام یا علیکم السلام کہے گا تو کافی ہو گا مگر سنت کا تارک ہو گا اس لئے مکروہ ہو گا اور دائیں اور بائیں کو منھ پھیرنا بھی سنت ہے اور اس وقت نظر دائیں اور بائیں کندھے پر رہے یہ مستحب ہے ، مختار یہ ہے کہ سلام الف لام کے ساتھ کہے اور اسی طرح تشھد میں ال کے ساتھ سلام کہے اور ختم نماز کے سلام میں و برکاتہ نہ کہے بلکہ تشھد کے سلام میں کہے اور سنت یہ ہے کہ امام دوسرا سلام پہلے سلام کی بہ نسبت نیچی آواز سے کہے اور یہی بہتر ہے اگر صرف دائیں طرف سلام پھیر کر کھڑا ہو گیا اور بائیں طرف سلام پھیرنا بھول گیا تو صحیح یہ ہے کہ اگر ابھی تک باتیں نہیں کی اور قبلے کی طرف پیٹھ نہیں کی تو بیٹھ کر دوسرا سلام پھیر دے اور اگر قبلے کی طرف کو پیٹھ پھیر چکا یا کلام کیا تو دوسرا سلام نہ پھیرے اور اگر اس کا الٹ کیا یعنی پہلے بائیں طرف کو سلام پھیر دیا تو جب تک کلام نہیں کیا اور قبلے سے نہ پھرا تب تک دائیں طرف کا سلام پھیر دے اور بائیں طرف کے سلام کا اعادہ نہ کرے اور اگر منھ کے سامنے کو (قبلے کی طرف) سلام پھیرا ہے تو دوسرا سلام بائیں طرف کو پھیر دے یعنی سامنے کا سلام دائیں طرف کے قائم مقام ہو جائے گا مقتدی کے سلام پھیرنے کے وقت میں اختلاف ہے مختار یہ ہے کہ مقتدی منتظر رہے اور جب امام داہنی طرف کو سلام پھیر چکے تب مقتدی داہنی طرف کو سلام پھیرے اور جب امام بائیں طرف کے سلام سے فارغ ہو تب مقتدی بائیں طرف کو سلام پھیرے اور جو محافظ فرشتے اور انسان اور صالح جن امام کے دونوں طرف ہیں سلام میں ان کی نیت دل میں کرے اور ہمارے زمانے میں عورتوں کی اور ان لوگوں کی جو نماز میں شریک نہیں نیت نہ کرے یہی صحیح ہے اور مقتدی دائیں بائیں طرف کے مقتدی لوگوں اور جنوں اور فرشتوں کے ساتھ امام کی نیت بھی کرے پس اگر امام داہنی طرف ہو تو اس طرف کے لوگوں میں اور بائیں طرف ہو تو اس طرف کے لوگوں میں امام کی بھی نیت کرے اور امام سامنے ہو تو امام ابو یوسف کے نزدیک دائیں جانب کے لوگوں میں اس کی نیت کرے اور امام محمد کے نزدیک دونوں طرف امام کی بھی نیت کرے امام ابو حنیفہ سے بھی یہی روایت ہے اور یہی صحیح ہے اور تنہا نماز پڑھتا ہو تو صرف فرشتوں کی نیت کرے اور کسی کی نیت نہ کرے فرشتوں کی نیت میں کوئی تعداد معین نہ کرے یہی صحیح ہے ( سلام میں اس نیت سے اکثر لوگ غافل ہیں )
یہ دو رکعت والی نماز کی ترکیب ہے اگر تین یا چار رکعت پڑھنا ہوں تو پہلے قعدے میں جب تشھد سے فارغ ہو تو اس سے زیادہ کچھ نہ پڑھیں بلکہ فوراً اللّٰہ اکبر کہہ کر تیسری رکعت کے لئے اٹھ کھڑا ہو، قعدے سے بھی اسی طرح گھٹنوں پر سہارا دے کر پنجوں کے بل کھڑا ہو جس طرح پہلی رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہوا تھا پھر دوسرا دوگانہ اسی طرح ادا کر کے جس طرح پہلے دو گانے میں قیام و رکوع و سجود کر چکا ہے اور فرضوں کے اس دوسرے دو گانے کی ہر رکعت کے قیام میں صرف بسم اللّٰہ اور الحمد شریف پڑھے، اس پر زیادتی کرنے یعنی صورت ملانے کا کچھ مضائقہ نہیں لیکن مکروہ تنزیہی اور خلاف اولیٰ ہے اور اس سے سجدہ سہو لازم نہیں آتا اور اگر ان پچھلی رکعتوں میں الحمد پڑھنا بھول جائے تب بھی سجدہ سہو لازم نہیں آتا کیونکہ فرضوں کی آخری دو رکعتوں میں نمازی کو اختیار ہے چاہے الحمد پڑھے یا تین بار تسبیح ( سبحان اللّٰہ) کہے یا بقدرِ تین بار تسبیح کہنے کے چپ رہے لیکن سورة الحمد پڑھنا تسبیح پڑھنے سے افضل ہے یہی اصح ہے اور چپ رہنا مکروہ ہے اور ترک سنت کی وجہ سے موجب اسائت ہے کیونکہ ان میں قرأت سنت ہے اور سکوت اس کے خلاف ہے ، اگر نماز نفل یا سنت یا واجب ہو تو ہر رکعت میں سورة الحمد کے بعد کوئی چھوٹی سورة یا کم از کم تین چھوٹی آیتیں یا ایک بڑی آیت پڑھے کہ اس قدر پڑھنا واجب ہے اور تین رکعت والی نماز میں تیسری رکعت کے بعد اور چار رکعت والی نماز میں چوتھی رکعت کے بعد قعدہ آخرہ کرے اور اس قعدے میں تشھد و درود و دعا اسی طرح پڑھے جس طرح دو رکعت والی نماز کے قعدے میں پڑھنا بیان ہوا ہے کیونکہ اس کا وہی آخری قعدہ ہوتا ہے اور اسی طرح سلام پھیرے، جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں یعنی ظہر و مغرب و عشا کی نماز، جب امام ان کا سلام پھیر چکے تو وہاں بیٹھ کر توقف کرنا مکروہ ہے مختصر دعا مثلاً
اَللَّھُم اَنتَ السَّلامُ مِنکَ السَّلاَمُ تَبَارَکتَ یَا ذَا الجَلَالِ وَ الاِکرَامُ ط
پڑھے یہ دعا بھی مسنون ہے
لَآ اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحدَہُ لَا شَرِیکَ لَہ‘ لَہُ المُلکُ وَلَہ‘ الحَمدَ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَی ئٍقَدِیرط اَللّٰھُم لَا مَانِعَ لِمَا اعطَیتَ وَلَا مَعطِی لِمَا مَنَعتَ وَلَا یَنفَعُ ذَا الجَدِّ مِنکَ الجَد ط
بڑی بڑی دعاؤں میں مشغول نہ ہو تھوڑی تاخیر جائز بلکہ مستحب ہے زیادہ دیر کرنا مکروہِ تنزیہی ہے اور اس سے سنتوں کا ثواب کم ہو جائے گا، مختصر دعا کے بعد امام فوراً سنتوں کے واسطے کھڑا ہو جائے اور جہاں فرض پڑھے وہاں سنتیں نہ پڑھے کہ یہ مکروہِ تنزیہی ہے دائیں یا بائیں یا پیچھے کو ہٹ جائے اور اگر چاہے تو اپنے گھر جا کر سنتیں پڑھے یہی بہتر ہے جب کہ کسی مانع کا خوف نہ ہو اور اگر مقتدی یا اکیلا نماز پڑھتا ہو اور وہ اپنی جگہ بیٹھ کر دعا مانگتا رہے تو جائز ہے اور اسی طرح سنتوں کے لئے اسی جگہ کھڑا ہو گیا یا پیچھے یا اِدھر اُدھر کو ہٹ گیا تو اس کے لئے یہ سب صورتیں برابر ہیں یعنی اس کے لئے کوئی کراہت نہیں ، ایک قول کے مطابق مستحب ہے کہ مقتدی صفیں توڑ کر آگے پیچھے ہو جائیں
اور جن نمازوں کے بعد سنتیں نہیں ہیں یعنی فجر اور عصر ان میں امام کو اسی جگہ قبلے کی طرف منھ کئے ہوئے بیٹھ کر توقف کرنا مکروہ ہے اور نبی کریم صلی اللّٰہ وعلیہ وسلم نے اس کا نام بدعت رکھا ہے لیکن یہ کراہتِ تنزیہی ہے پس امام کو اختیار ہے چاہے گھر چلا جائے لیکن افضل یہ ہے کہ اپنی محراب میں بیٹھا رہے اور جماعت کی طرف منھ کر لے جب کہ اس کے سامنے کوئی مسبوق نماز نہ پڑھتا ہو اور اگر کوئی نماز پڑھتا ہو تو دائیں یا بائیں طرف کو پھر جائے اور اگر امام اور اس نمازی کے بیچ میں کوئی تیسرا شخص ہو جس کی پیٹھ نمازی کی طرف ہو تو امام کے اس طرف منھ کرنے میں کوئی کراہت نہیں کیونکہ تیسرا شخص بجائے سترے کے ہو جائے گا، سردی اور گرمی کے موسم کا ایک ہی سا حکم ہے یہی صحیح ہے ، صبح کی نماز کے بعد امام کو طلوع آفتاب تک اپنی محراب میں بیٹھے رہنا افضل ہے ، فرض نمازوں کے بعد جب کہ ان کے بعد سنتیں نہ ہوں یعنی فجر و عصر میں فرضوں کے بعد اور جن فرضوں کے بعد سنتیں ہوں یعنی ظہر و مغرب و عشا میں سنتوں کے بعد یہ اذکار مستحب ہے
اَستَغفِرَ اللّٰہُ العَظِیمَ الَّذِی لَاَ اِلَہَ اِلَّا ھُوَ الحَیُّ القَیُّومُ وَ اَتُوبَ اِلَیہ ط
تین مرتبہ آیت کرسی
سورة اخلاص قُل ھُوَ اللّٰہُ اَحَدُ ط ایک مرتبہ
سورة الفلق قُل اَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَق ط ایک مرتبہ
سورة الناس قُل اَعُوذُ بِرَبِ النَّاسِ طایک مرتبہ
سُبحَانَ اللّٰہ تینتیس(33) بار
اَلحَمدُ لِلَّہ تینتیس(33) بار
اللّٰہ اکبر تینتیس(33) بار
یہ تینوں مل کر ننانوے بار ہوئے اور سو پورا کرنے کے لئے ایک بار
لَا اِلَہ اِلَّا اللّٰہُ وَحدَہُ لَا شَرَیکَ لَہ‘ لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَی ئٍ قَدِیر
( بعض روایتوں میں اللّٰہ اکبر چونتیس (34) بار آیا ہے ، ان چاروں کلمات کا مذکورہ طریقے پر ملا کر سو بار پڑھنا تسبیح فاطمی کہلاتا ہے ) اس کے بعد دعا مانگے دعا کے وقت دونوں ہاتھ سینے تک اٹھا کر پھیلائے اور اللّٰہ تعالیٰ سے دعا مانگے اور امام ہو تو تمام مقتدیوں کے لئے بھی دعا مانگے اور مقتدی خواہ اپنی اپنی دعا مانگیں یا اگر امام کی دعا سنائی دے تو سب آمین کہتے رہیں اور دعا ختم کرنے کے بعد دونوں ہاتھ منھ پر پھیرے نماز کے بعد کی دعا غیر عربی زبان میں مانگنا بلا کراہت جائز ہے
فائدہ: احادیث میں کسی دعا و ذکر کی بابت جو تعداد ورد ہے اس سے کم زیادہ نہ کرے کیونکہ یہ فضائل ان اذکار کے لئے وارد ہیں وہ اسی تعداد کے ساتھ مخصوص ہیں ان میں کم زیادہ کرنے کی مثال ایسی ہے کوئی قفل کسی خاص قسم کی کنجی سے کھلتا ہے اب اگر اس کجنی میں دندانے اس سے کم یا زیادہ کر دیں تو پھر اس سے وہ قفل نہ کھلے گا، البتہ اگر شمار میں شک واقع ہو تو زیادہ کر سکتا ہے اور یہ زیادتی نہیں بلکہ اتمام ہے