ہر پیغمبر کے زمانے میں جو لوگ اس پیغمبر پر ایمان لائے وہ اس کے صحابی ہیں آنحضرت کے بھی صحابی ہیں، صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں آنحضرت کو دیکھا ہو، یا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہو، اور اس شخص کی موت ایمان پر ہوئی ہو۔ صحابی ہزاروں ہیں، جو آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوئے اور اسلام پر ان کی وفات ہوئی صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم کے مرتبے آپس میں کم زیادہ ہیں، لیکن تمام صحابہ باقی امت سے افضل ہیں، اگر کسی دوسرے مومن نے اپنی ساری عمر نیک اعمال کرنے میں گزاری ہو اور احد پہاڑ کے برابر سونا اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا ہو کسی صحابہ کے ایک ادنیٰ عمل اور ایک مد (تقریباً ایک سیر) جو کے خیرات کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور کوئی بڑے سے بڑا غیر صحابی ولی ایک ادنیٰ صحابی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ تمام صحابہ میں سب سے افضل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ ہیں، جو تمام امت سے افضل ہیں ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ تمام امت سے افضل ہیں، ان کے بعد حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ عنہ، پھر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ تمام امت سے افضل ہیں، یہی چاروں بزرگ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد اسی ترکیب سے جو اوپر بیان ہوئی آپ کے خلیفہ ہوئے آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد دین کا کام سنبھالنے اور جو انتظامات آپ فرماتے تھے انہیں قائم رکھنے کے لئے جو شخص تمام مسلمانوں کی اتفاق رائے سے آپ کا قائم مقام ہوا اسے خلیفہ کہتے ہیں چنانچہ سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ پھر حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ پھر حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ اور ان کے بعد حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ خلیفہ ہوئے ان چاروں کو خلفاء اربع و خلفائے راشدین و چار یار کہتے ہیں، ان چاروں کے بعد حضرت امام حسن بن علی رضی اللّٰہ عنہ خلیفہ ہوئے اور ان کی مدت خلافت تک تمام خلفاء کی خلافت کی مدت تیس سال ہے،اس کو خلافت راشدہ کہتے ہیں۔ جس کا ذکر حدیث شریف میں ہے، ان چار یار کے بعد مجموعی طور پر سب اہل بیت باقی صحابہ سے افضل ہیں، اہل بیت میں تمام ازواج مطہرات اور حضرت علی (جن کا ذکر چار میں آ چکا ہے ) حضرت فاطمہ زہرہ، حضرت حسن و حسین رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیم اجمعین شامل ہیں ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ و حضرت خدیجہ الکبریٰ سب سے افضل ہیں اور صاحب زادیوں میں حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللّٰہ عنہ سب سے افضل ہیں فتح مکہ سے قبل اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور جہاد میں شامل ہونے والے صحابہ بعد والوں سے افضل ہیں، نیز جنگ بدر میں شامل ہونے والے صحابہ سابقین و افضل ہیں۔ ان کے علاوہ باقی صحابہ میں ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دی جائے سب کو افضل جانے اور کسی کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی بھی نہ کرے ورنہ ایمان ضائع ہو جائے گا۔ صحابہ کرام کے اندرونی جھگڑوں اور ان کے آپس کے اختلافات کو نیک نیتی پر قیاس کرنا چاہئے۔ تمام صحابہ مجتہد تھے۔ مجتہد سے خطا و ثواب دونوں صادر ہوتے ہیں لیکن ان کی خطا اجتہادی خطا ہے جس پر وہ ایک درجہ ثواب پائیں گے غیر صحابی نے جس صحابی کی تقلید کی وہ نجات پا گیا اس لئے تمام صحابہ کرام مطبوع و معیار شریعت ہیں، ان کی شان میں زبان طعن دراز کرنا اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب اور سخت حرام ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اس وبال سے بچائے آمین۔ حضرت امام حسن و امام حسین رضی اللّٰہ عنہ یقیناً اعلی درجہ کے شہدا کرام سے ہیں۔ ان کی شہادت کا منکر گمراہ و بے دین ہے